|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2021

کوئٹہ: صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کہا ہے کہ شہید صحافی عبدالواحد رئیسانی کے قتل میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے ملزمان کے گھر سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے واقعہ کی مزید تفتیش کی جارہی ہے، فیضان جتک واقعہ میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔موسیٰ خیل کے مختلف علاقوں ڑالہ باری سے وہاں کھڑی فصلوں کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایاگیا جیسے ہی ڈپٹی کمشنر آگاہ کرینگے وہاں متاثرین کی امداد کی جائیگی۔ ان خیالات کا اطہار انہوںنے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کے توجہ دلاو نوٹسزکا جواب دیتے ہوئے کیا۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی شکیلہ نوید قاضی نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالواحد رئیسانی جنہیں رمضان کے پہلے عشرے کے دوران قمبرانی روڈ پر مسلح افراد کی جانب سے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا انہوں نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ ان کے ان کے قاتلوں کی گرفتاری کی بابت حکومت کی جانب سے اب تک اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیل فراہم کی جائے انہوں نے کہا کہ صحافی عبدالواحد رئیسانی کی شہادت ایک شخص کا نہیں بلکہ شعور اور نظریہ کا قتل ہے وہ صوبے کی ترقی کیلئے آگے بڑھتا ہوا اپنے لوگوں کی آواز بننا چاہتاتھا عبدالواحد رئیسانی کا قتل اگر خاندانی جھگڑا ہے تو محرکات سامنے لائے جائیں کہ تحقیقات کہاں تک ہوئی ہیں انہوں نے کہاکہ جس وقت تنازعہ ہوا میں خود سریاب تھانے گئی جہاں پر ہمسایہ ملک سے آنے والے لوگ اتنے بااثر تھے کہ بحیثیت رکن اسمبلی میری موجودگی کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں ہوسکا اور نہ ہی ہماری سنی گئی۔

انہوں نے کہاکہ واحد رئیسانی کا قتل بھی بلوچستان میں تسلسل سے ہونے والی واقعات کی کڑی ہے ایک مرتبہ پھر او ایس ڈی کئے گئے لوگوں کو ایکٹو کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ واحد رئیسانی کے قتل میں سریاب تھانے کے عملے کو بھی تفتیش میں شامل کیا جائے ، واحد رئیسانی کو 6 گولیاں ماری گئیں اور جن لوگوں کو پکڑا گیا ان کو سزا تک نہیں دی جارہی ، انہوں نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ واحد رئیسانی کی شہادت کے خلاف جب صحافیوں نے اپنے ساتھی کے قتل کے خلاف اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تب کمیٹی بنائی گئی تھی بتایا جائے کہ اس کمیٹی کی بات چیت کا کیا نتیجہ نکلا ، ٹویٹر پر مذمتی بیان ہمارے دلوں کو نہیں چھوتی ، عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ اب تک کی تحقیقات سے ہمیں آگاہ کریں کیونکہ ہمیں کوئی کارروائی ہوتی نظر نہیں آرہی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسلسل ایسے واقعات ہورہے ہیں ، فیضان جتک کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا مگر اب تک تحقیقات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اس سے پہلے برمش کے سامنے اس کی ماں ملک ناز کو قتل کیا گیا ، حیات بلوچ کے قتل کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے ، شاہینہ شاہین کے قاتل کا آج تک پتہ بھی نہیں چل سکا ، آواران میں نور جان نامی شخص نے اپنی عزت کیلئے اپنی جان دی مگر محرکات سامنے نہیں لائے جارہے ہیں ، گزشتہ روز کوئٹہ میں بھی دو افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہم اس ایوان میں قراردادیں ، تحاریک التواء پیش کرتے ہیں مگر ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ عبدالواحد رئیسانی کو 24 اپریل کو قمبرانی روڈ پر فائرنگ کرکے شہید کیا گیا جس میں وقوعہ کے قریب نصب کیمروں کے ذریعے ملزمان کی موبائل کا سی ڈی آر حاصل کیا گیا ملزمان میں کمال الدین ، رفیع اللہ اور رابعہ شامل ہیں جن میں سے کمال الدین اور رابعہ کو گرفتار کیا گیا ملزم کمال الدین کا بیان 164 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے قلم بند کیا گیا جبکہ ملزمہ رابعہ کا ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے اور وہ ریمانڈ پر ہے جبکہ اس کا شوہر گرفتاری کے ڈر سے ہمسایہ ملک افغانستان فرار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمہ کو 18 مئی کو گرفتار کیا گیا جبکہ ملزمان کے گھر سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے واقعہ سے متعلق مزید تفتیش کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ملک ناز کے قتل میں نامزد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ حیات بلوچ کے قتل میں ملوث اہلکار کو سزا ہوئی ہے جبکہ فیضان جتک کے واقعہ میں اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے جس اہلکار نے گولی چلائی ہے وہ بھی حراست میں ہے۔

اجلاس میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اخترحسین لانگو نے بھی نوجوان صحافی عبدالواحد رئیسانی کی شہادت کے واقعہ کی مذمت کی۔اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ 15مئی 2021ء کو ضلع موسیٰ خیل کے مختلف علاقوں توئی سر،یونین کونسل غڑیاسہ ،ڑورایسوٹ ،ڈاکیاں اور نسشبی میں شدید ڑالہ باری سے وہاں کھڑی فصلوں بالخصوص گندم کی تیار فصل مکمل طورپر تباہ ہوگئی جس سے وہاں کے زمینداروں کو کروڑوں روپے کانقصان ہواہے انہوںنے استفسار کیا کہ حکومت نے مذکورہ علاقے کے زمینداروں کے مالی مدد کے بارے میں اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں تفصیل فراہم کی جائے۔

انہوں نے کہاکہ موسیٰ خیل زراعت اور گلہ بانی کے حوالے سے صوبے کا ایک اہم علاقہ ہے جو مون سون کے رینج میں بھی آتاہے وہاں گزشتہ چند دنوں میں تین مرتبہ ڑالہ باری سے گندم کی تیار فصل تباہ ہوگئی لیکن تاہم وہاں پر اب تک پی ڈی ایم اے ،محکمہ زراعت یا کسی اور محکمے کی جانب سے متاثرین کی کوئی امداد نہیں کی گئی صوبائی وزیر داخلہ وپی ڈی ایم اے میر ضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ جہاں بھی قدرتی آفات سے ایسے نقصانات ہوتے ہیں وہاں سے ڈپٹی کمشنر نقصانات کے تخمینہ کا اندازہ لگا کر آگاہ کرتے ہیں جس پر پی ڈی ایم اے کی جانب سے متاثرین کی امداد کی جاتی ہے مگر اب تک ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل کی جانب سے نقصانات کاتخمینہ نہیں لگایاگیا جیسے ہی ڈپٹی کمشنر آگاہ کرینگے وہاں متاثرین کی امداد کی جائیگی۔پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے صوبائی وزیر سے استدعا کی کہ وہ خود ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کرکے جلد تخمینہ کااندازہ لگوائیں جس پر صوبائی وزیر میرضیاء اللہ لانگو نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ خود ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل سے اس سلسلے میں رابطہ کرینگے۔