ملک میں گزشتہ تین حکومتوں کے دوران وفاقی حکومتوں کی جانب سے ہر وقت یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہمارے دور میں بلوچستان کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی اور فنڈز میں اضافہ کیا گیاتاکہ بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا خاتمہ ہوسکے ۔مگر بلوچستان میں ترقی اور انفراسٹرکچر کی صورتحال سب کے سامنے عیاں ہے کہ صرف گزشتہ تیس سالوں کے دوران حکومتوں کے دعوؤں اور زمینی حقائق کا جائزہ لیاجائے تو تمام دعوے کھل کر سامنے آجائینگے کہ بلوچستان دیگر صوبوں کی نسبت ترقی کے حوالے سے کہاں کھڑاہے؟
باوجود اس کے بلوچستان کا شمار ملک کے سب سے زیادہ معدنی وسائل پیداکرنے کے حوالے سے ہوتا ہے جبکہ سی پیک کامرکز بھی بلوچستان ہے لیکن افسوس کہ یہاں کے حالات نہیں بدلے ،ترقی تو دور کی بات بنیادی سہولیات تک عوام کو میسر نہیں،آبادی کے تناسب سے دیگر صوبوں کے ساتھ بلوچستان کا موازنہ کیاجائے تو مسائل کب کے حل ہوجانے چاہئے تھے خاص کرتعلیم، صحت، بجلی، پانی، مواصلات، شاہراہیں، بس سروسز، ٹرین سروسز جیسے مسائل سے عوام دوچار نہ ہوتے کیونکہ دیگر صوبوںمیں آبادی زیادہ ہونے کے ساتھ اخراجات بھی زیادہ ہیں مگر بلوچستان میں آبادی کی شرح کم ہے گوکہ منتشر آبادی اور وسیع صوبہ ضرور ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک میں بلوچستان جیسے علاقوں کو ترجیح دی جاتی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے ترقیاتی عمل کو بیلنس کیا جائے ۔مگر ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کو جتنے بھی فنڈز وفاق سے ملے ہیں۔
ان کا کوئی حساب کتاب نہیں کہ یہ کہاں خرچ کئے گئے اور نہ ہی وفاقی حکومتوں نے کبھی ذمہ داری کے ساتھ چیک اینڈبیلنس رکھی کہ ان کے دیئے گئے فنڈز جن منصوبوں اور مقاصد کیلئے دئیے گئے ہیں وہ وہاں پر خرچ ہورہے ہیں اور ان کے نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں یا نہیں؟المیہ یہ ہے کہ وفاقی حکومتیں اپنے اتحادیوں کو ناراض نہیں کرناچاہتے جس کی وجہ سے وہ فنڈز کا حساب نہیں لیتے کیونکہ انہیں مرکز میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھنا پڑتا ہے تاکہ انہیں سیاسی نقصان نہ اٹھاناپڑے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں ریکارڈ کرپشن ہوتا آرہا ہے۔اوریہاں کا ہر طبقہ یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ بلوچستان کے میگامنصوبوں سے ملنے والے محاصل کا جائزحصہ وفاق دے تو بلوچستان کو وفاق کی طرف دیکھنا نہیں پڑے گا مگر یہاں صوبائی حکومتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر فنڈز کو مال غنیمت کے طور پر آپس میں بندربانٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں مسائل جوں کے توں ہیں۔
موجودہ حکومت کے مطابق وہ بلوچستان کی ترقی میں سب سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے جس کا اظہار ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے دورہ زیارت کے موقع پر ایک تقریب کے دوران کیا ، ان کاکہنا تھا کہ ہم نے مشکل وقت میں مشکل حالات کے باوجود بلوچستان کو جنتا بھی ہو سکا، فنڈز دئیے اور مجھے خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومتیں کہتی ہیں کہ آپ بلوچستان پر بہت زیادہ مہربان ہو گئے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بلوچستان کو واقعی نظر انداز کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پر جو پیسہ خرچ کیا جانا تھا، وہ بھی صحیح طریقے سے خرچ نہیں کیا گیا اور نہ ہی توجہ دی گئی، اگر وہ پیسہ صحیح معنوں میں خرچ ہو جاتا تو بلوچستان کے حالات بہت بہتر ہوتے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں ہم نے صوبے کو 700 ارب روپے کا سب سے بڑا پیکج دیا ہے، ایک اور سڑکوں کا پیکج دے رہے ہیں اور بلوچستان کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔ اب وزیراعظم سے بھی یہی گزارش ہے کہ فنڈز کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں پر بھی توجہ دیں کہ رقم صحیح جگہ پرخرچ ہورہی ہے کہ نہیں؟نیز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو بھی چائیے کہ جتنے بھی فنڈز وفاق کی جانب سے صوبے کو ملتے ہیں انہیں بلوچستان کے پسے ہوئے عوام پر خرچ کریں اور فنڈز لیپس کرواکر وفاق کو واپس کر کے خوش کرنے کے بجائے اپنے عوام کو جتنا بھی ممکن ہو سہولیات فراہم کریں کیونکہ فنڈز خرچ نہ کرنے پر وفاق کی جانب سے پھر یہ طعنہ بھی سننے کو ملے گا کہ بلوچستان کی حکومت میں یہ اہلیت ہی نہیں کہ وہ اپنے فنڈز استعمال کرسکے۔ لہذا فنڈز کو درست جگہوں پر استعمال کرکے اپنی اہلیت دکھادیں اور اس پسماندہ صوبے کے لیے مزید فنڈز طلب کریں بجائے یہ کہ اپنے موصول شدہ فنڈز کو ہی واپس کردیں ، جام صاحب یہ کوئی کمال نہیں۔