پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہمارے یہاں جمہوریت اور پارلیمان کی مضبوطی میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک مخصوص اشرافیہ رہی ہے جو آج بھی سیاسی میدان میں موجود ہے جو جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا راگ الاپ کر تھکتا نہیں اور یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ عام لوگوں کو اس کا علم نہیں کہ کس طرح سے اس اشرافیہ نے چور دروازے کا سہارہ لیتے ہوئے سیاست کے میدان میں یکدم سے نمودار ہوا اور راتوں رات سیاستدان بننے کے ساتھ حکمران بن گئے۔
چند سیاسی شخصیات جنہوں نے حقیقی معنوں میں اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دیں وہ سب کے سامنے ہیں مگر یہاں ذکر اس اشرافیہ کا ہورہا ہے جو حکمران جماعت کے ساتھ ہر دور میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ان کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں بلکہ سیاست میں آکر پیسے بنانا ان کا اصل مقصد ہے اور اس میں وہ بعض حد تک کامیاب بھی ہوئے اور آج ملک کے بڑے ایوانوں میں ان کی موجودگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے مگر اس کے ذمہ دار بھی وہ سیاسی لیڈران ہیں جو مخلص تو ہیں مگر بدقسمتی سے حکومت بنانے کیلئے مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کرلیتے ہیں، اس طرح ہمارے یہ لیڈران بھی ہمارے نظام کو کمزور کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
اس کرپٹ سیاسی کلچر کے خاتمے کیلئے کوششیں تو بہت کی گئیں مگریہی مصلحت پسندی اس میں آج تک رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہر جماعت اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے اگر یہی سیاسی رویہ مستقبل میں بھی رہا تو کسی طرح کی بھی تبدیلی کی امیدنہیں کی جاسکتی۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں لودھراں تاملتان شاہراہ کی اپ گریڈیشن وبحالی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خود کوجمہوری کہنے والے فوج کوکہہ رہے ہیں حکومت گرادو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقتدار میں آئے تو کہناشروع ہوگیا کہ کہاں ہے نیا پاکستان۔ لوگوں کوتاثر دیا گیا کہ بٹن دباتے ہی نیا پاکستان سامنے آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک این آراونہیں ملتا تنقید جاری رہے گی۔ کوئی بھی معاشرہ جدوجہد کے بغیر بہتر نظام کی جانب نہیں جاسکتا۔ اسٹیٹس کو کے بینیفشریز کبھی بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتے۔قائداعظم نے آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھا، 1947کے بعد ملکی نظام بدلنے کیلئے جدوجہد جاری ہے۔ ہرجگہ مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں جن کے خاتمے کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے۔خوشحال ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے۔
کہاجارہا ہے کہ حکومت کو گرادو۔ ان کی چوریاں سامنے آرہی ہیں اس لیے حکومت گرانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان جس اسٹیٹس کو کی مثال دے رہے ہیں کیاآج ان کی جماعت میں ایسی سیاسی شخصیات موجود نہیں جو ماضی میں کسی اور کی صف میں شامل تھے اور انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا۔کہنے کامقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کے قول وفعل میں بہت زیادہ تضادات موجود ہیں یعنی جو ہمارے ساتھ ہے وہ پارسااور جو مخالف، وہ جمہوریت اور ترقی دشمن ہے۔ اگر اسی طرح سے سیاست چلتی رہی تو موقع پرست اور اسٹیٹس کو کے بینیفشریز ہمارے سیاسی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہینگے اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہوئے اگلی باری آنے والی جماعت کے ساتھ ہاتھ ملانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرینگے۔ آج ملک میں سب سے بڑا مسئلہ پارلیمان اور قانون کی بالادستی کا ہے جب نظام ان کے ماتحت چلے گا تو موقع پرست اور مفادپرست ٹولے کی سیاست کا خاتمہ یقینی ہوگا۔