وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کا خطرہ بالکل ٹل گیا ہے ، بلوچستان عوامی پارٹی کے بیشتر اراکین وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ ہیں باپ کے دوارکان کی ناراضگی کو بھی ختم کرنے کے حوالے سے سینئر ارکان سرگرم ہیں ، بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک اہم شخصیت کے مطابق چندماہ قبل یقینا معاملات خراب تھے اور سینئر ارکان کے شکوے وزیراعلیٰ بلوچستان سے تھے کہ انہیں بعض معاملات پر اعتماد میں نہیں لیاجاتابلکہ تمام تر حکومتی امور پر مشاورت چند مشیران سے کی جارہی تھی اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے قریب چند سینئر ارکان نے صورتحال سے انہیںآگاہ کیاتھا کہ اگر اپنے ارکان کی ناراضگی کو نظرانداز کرینگے ۔
توآگے چل کر حکومت کیلئے مسائل پیدا ہونگے اور اس کشیدہ صورتحال کا براہ راست اثر پارٹی پر بھی پڑے گا جو انٹراانتخابات کی صورت سے قبل بجٹ کے دوران ہی ہمارے سامنے آئینگے اس لئے ضروری ہے کہ ناراض اراکین کے تحفظات کو سنا جائے تاکہ خوش اسلوبی سے اپنی جماعت کے اندر موجودناراضگی کو ختم کیاجاسکے اس سے پہلا فائدہ بجٹ بنانے اور اس کو پیش کرنے میں آسانی ہوگی اراکین اگر بجٹ میں کچھ اپنے حلقے کیلئے رقم اور منصوبے چاہتے ہیں تو ان پر نظرثانی کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیاجائے ۔اور یہی ہوا کہ ناراض اراکین سے سینئر اراکین کی ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوا اور اس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی ان کی بات چیت ہوئی جس میں ارکان کی ناراضگی کے ازالے کی یقین دہانی کرادی گئی۔
جبکہ ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ دونوں اطراف سے کسی طرح کی بیان بازی سے گریز کیاجائے گا اگر پارٹی کے اندرونی معاملات پر ناراضگیاں ہیں تو اپنے فورم پر بیٹھ کر اسے حل کئے جائینگے بجائے اسے میڈیا کی زینت بنایا جائے۔ اب صرف دو ارکان کے حوالے سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ ان کے ساتھ معالات طے نہیں پائے ہیں کوشش کی جارہی ہے کہ انہیں بھی جلد ساتھ بٹھاکر ناراضگیوں کو ختم کیاجائے جس کیلئے سینئر ارکان مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جلد ہی بقول باپ کی ایک اہم شخصیت کے اس میں بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کوکامیابی حاصل ہوگی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بجٹ کے فوری بعد چند وزارتیں بھی باپ کے اہم ارکان کو دیئے جانے کاامکان ہے کیونکہ ان مذاکرات میںایک اہم جز یہ بھی شامل تھا کہ اپنے سینئر ارکان کو وزارتیں دے کر ان کی حکومتی نمائندگی کو یقینی بنایاجائے بجائے۔
یہ کہ مشیران سے بعض معاملات کو چلایا جائے جس کا فائدہ تو نہیں ہورہا بلکہ پارٹی اور حکومت کیلئے مسائل کا سبب بن رہا ہے کیونکہ گزشتہ دوسالوں سے حکومتی معاملات کی تشہیر زیادہ تر مشیران اور چند غیر منتخب شخصیات کررہے ہیں جس سے اچھا تاثر حکومت اور باپ پارٹی کی طرف سے نہیں جارہا جبکہ اپنے سینئر ارکان کو مکمل طور پر سائیڈلائن کردیا گیا ہے اس لئے انہیں محکموں کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تاکہ پارٹی کی نمائندگی سمیت محکموں میں بہتری لائی جاسکے جس کا براہ راست فائدہ مجموعی طور پر حکومت کو ہوگا ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور باپ کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے ۔
،وفاقی وزیر اسد عمر جنہیں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ذمہ داریاں سونپی ہیںیہ طے پایاہے کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کیخلاف کوئی بھی بیان بازی نہیں کی جائے گی بلکہ بجٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند کی جانب سے تجویز کردہ منصوبوں کی منظوری کو بھی یقینی بنایاجائے گا مگر ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے منصوبوں کو نظرانداز کیاگیا توپھر پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کسی بڑے فیصلے سے گریز نہیں کرے گی جس کا اظہار پہلے بھی پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کرچکی ہے ۔