|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2021

بلوچستان کاسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ جتنے ممالک نے بھی یہاں سرمایہ کاری کی انہوں نے بلوچستان کو ایک کالونی پالیسی کی طرز پر چلایا چند منصوبوں کے عیوض بلوچستان سے اربوں ڈالر کا منافع بھرپور طریقے سے کمایا اور اس کے ساتھ قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے باقاعدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگے بڑھ کر رقم بٹورنے کی کوشش کی۔اس کی بڑی مثالیں ہمارے یہاں کے میگا منصوبے ہیں جن کا حساب کتاب کبھی کسی وفاقی وصوبائی حکومتوں نے نہیں لیا خاص کر وفاقی حکومتوں کی ترجیحات میں اپنا منافع اور اپنے ساتھیوں کی اس میں شراکت داری رہی ہے۔

جب بھی کسی صوبائی وزیر اعلیٰ سے ماضی کے میگامنصوبوں کے متعلق سوال پوچھا جاتا ہے تو ان کا رونا یہی ہوتا ہے کہ ہمیں بعض معاملات پر کبھی اعتماد میں نہیں لیاگیا گوکہ چند ایک وزیراعلیٰ نے کمپنیوں کے غیر قانونی عمل کے خلاف مزاحمت ضرور کی اور بعدازاں اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ مگر یہ سلسلہ کب تک اسی طرح جاری رہے گا کہ کوئی بھی ملک سرمایہ کاری کرنے آئے تو بلوچستان کے ان علاقوں تک رسائی حاصل کرے جہاں معاشی فوائد حاصل ہوں جن کا ان کے پاس کوئی قانونی جواز موجود ہی نہیں ہے۔ایک واضح مثال گزشتہ دنوں گوادر کے سمندری حدود میں چائنیز ٹرالرز کی غیر قانونی سمندری حیات کی نسل کشی ہے اس کی تردید حکام کی جانب سے کی گئی ہے مگراب بھی اطلاعات یہی آرہی ہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے۔

اس وقت بھی سینکڑوں چائینیز ٹرالرز گوادر کے قریب سمندر میں سمندری حیات کی نسل کشی میں مصروف ہیں اور اس کی باقاعدہ ویڈیوز مقامی گیروں کی جانب سے بنائی گئیں ہیں، ویڈیو کے مطابق یہ جہاز مچھلیوں کا شکار کررہے ہیں۔ چائینیز جہاز فیکٹری شپ کہلاتے ہیں جن کے اندر مچھلیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے باقاعدہ پروسینگ یونٹس ہوتے ہیں۔ ایک طرف وہ مچھلیوں کا شکار کررہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہ مچھلیوں کو پروسیس کرکے براہ راست انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں۔گزشتہ سال اگست کے مہینے میں روزنامہ آزادی کے کالم نویس، عزیز سنگھور نے اپنے کالم “سمندر برائے فروخت” میں ان جہازوں کو لائنسز جاری کرنے کا انکشاف کیا تھا جس کی سرکاری حکام نے تردید کی تھی تاہم ادارہ اور کالم نویس اپنے موقف پر قائم رہے۔سندھ اور بلوچستان میں 20 لاکھ افراد ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ان کے گھر کا چولہا ماہی گیری کی صنعت سے جلتا ہے لیکن چائینیز جہازوں کی دخل اندازی سے لاکھوں ماہی گیر بے روزگار ہوجائیں گے اور لاکھوں خاندان معاشی بدحالی کا شکار ہوجائیں گے۔ ان کے گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے، وہ نانِ شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے۔ان کی خوشحال زندگی بدحالی میں تبدیل ہوجائے گی اور اس صورتحال کیخلاف ماہی گیرتنظیموں کی جانب سے بارہا شکایات سامنے آرہی ہیں کہ اس کا نوٹس لیاجائے تاکہ ماہی گیروں کے معاشی قتل عام کو روکا جاسکے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تحقیقات کرنے کی بجائے محض ایک تردید سامنے سے آجاتی ہے۔ بیشک پاکستان اور چین دیرینہ دوست ہیں چین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کے قانونی معاملات سے تجاوز کرتے ہوئے دیگر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھے جس کی اجازت قانونی طور پر ان کے پاس موجود نہیں ہے لہٰذا صوبائی حکومت اس حوالے سے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کرے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں اور ماہی گیروں میں موجود تشویش کا خاتمہ ہوسکے۔