بلوچستان اپنے محل وقوع اور سرحدات کی وجہ سے بہت ہی کم بحث کا حصہ بنتا ہے ہاں البتہ کوئی بڑاسانحہ رونما ہوجائے تو گھنٹوں تک اس پر بات کی جاتی ہے مگر اس کے اصل محرکات اور وجوہات کی کھوج اور گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کیونکر بلوچستان میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس کے وجوہات اور مقاصد کیا ہیں۔ حسب روایت پرانی باتوں کو دہراکر محرکات پر کھل کر اظہار نہیں کیا جاتا یا پھر معلومات کے فقدان کے باعث سطحی بات زیادہ کی جاتی ہے۔
بہرحال بلوچستان کی سیاسی، قبائلی، سماجی حلقوں سمیت ہر مکتبہ فکر تشدد کیخلاف ہمیشہ کھل کر بولتے آئے ہیں مگر ان کو رسائی ملک کی بڑی میڈیا تک بہت کم ہی دی جاتی ہے حسب ضرورت انہیں بلاکر اپنے ہی نکتہ پر ان سے بات کی جاتی ہے مگر ان کے اندر موجود بلوچستان کے درد اور تکلیف کو سنا نہیں جاتا اسی طرح سے بلوچستان کے سینئر مبصرین کو بلوچستان کے حالات پر بولنے کیلئے مدعوہی نہیں کیاجاتا جو بلوچستان کے حقیقی حالات سے لوگوں کو معلومات اسی فلیٹ فارم کے ذریعے مہیا کرسکیں۔ ایسے ہی المیہ کی وجہ سے بلوچستان کو ہمیشہ منفی رویوں سے دیکھا گیا ہے
البتہ ہمارا اس وقت موضوع وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتی ہے جس کا ازالہ کبھی بھی نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ہی وزیراعظم عمران خان نے ضلع زیارت کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی ووفاقی وزراء کی موجودگی میں یہ بات کہی تھی کہ میں نے جب سے وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے میری ترجیح بلوچستان رہی ہے اور سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان کو دینے پر میرے ساتھی مجھ سے خفاء ہوجاتے ہیں کہ آپ ہمیں نظرانداز کرکے بلوچستان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ساتھ ہی وزیراعظم فرماتے ہیں کہ میرامقصد بلوچستان کے ساتھ دہائیوں سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہے تاکہ بلوچستان بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ترقی کرے اور یہاں کے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئے۔
یقینا ان کا اشارہ معیشت، تعلیم، صحت سمیت دیگر سہولیات پر ہے اور یہی امید بھی بلوچستان کے عوام کررہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان وفاقی بجٹ میں اس بار بلوچستان کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہوئے بڑے منصوبے دینے کے ساتھ خطیر رقم بھی پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے مختص کرینگے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا جس کی واضح مثال سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے پیش کردہ ڈاکومنٹ تھے جنہوں نے میڈیا کے سامنے رکھے کہ بلوچستان کو جب اس بجٹ میں ٹرخایاگیا تو ہم اور مزید کیا گلہ کرسکتے ہیں
مگر ایک بات تسلیم سب کو کرنی چاہئے کہ2008ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ سمیت فنڈز اور منصوبے سب سے زیادہ دیئے گئے اب یہ رقم کہاں اور کس طرح خرچ ہوئی اس کا حساب لینا اداروں کا کام ہے مگر وفاق میں رہ کر پیپلزپارٹی نے اپنا حصہ بلوچستان کی ترقی میں ڈالنے کیلئے ایک اچھی کوشش ضرور کی۔ اب موجودہ وفاقی بجٹ کی ایک جھلک کا اندازہ جنوبی بلوچستان کی ترقی کیلئے مختص کی گئی رقم پر ڈال کر کی جاسکتی ہے۔
وفاقی بجٹ میں جنوبی بلوچستان کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں جنوبی بلوچستان میں ترقیاتی پلان شامل ہیں، مندرجہ بالا جن حوالہ جات پر بات کی جارہی تھی اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جنوبی بلوچستان کے رقبہ اور محل وقوع وجغرافیہ سے اب بھی ناواقفیت واضح طور پر جھلک رہی ہے کہ اتنے بڑے علاقے کیلئے محض 20ارب دینے سے کونسی بڑی تبدیلی اور ترقی لائی جاسکتی ہے،اس علاقے میں شاہراہیں، مواصلاتی نظام، بجلی، صحت، تعلیم سمیت بہت بڑے مسائل موجود ہیں تو کس طرح سے اس رقم سے ان مسائل کو حل کیاجاسکتا ہے محض جنوبی بلوچستان کا نام دینے اور ترقی کا واویلا کرنے سے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا بلکہ زخموں پر مزید نمک پاشی کی جارہی ہے لہٰذا بلوچستان کی ترقی کے دعوے کرنے سے قبل اس کے محل وقوع اور مسائل سے واقفیت انتہائی ضروری ہے جس کا فقدان اب بھی موجود ہے۔