|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2021

پاکستان میں عوام دوست بجٹ کا ذکر دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں اور ہر حکومت اپنے بجٹ کو عوامی بجٹ کا نام ہی دیتی ہے صرف موجودہ نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی عوام کو اسی خوش فہمی میں رکھا کہ ہمارا وژن عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہے تنخواہ دار سے لیکر مزدور طبقے کیلئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے اسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بجٹ بناکر عوام کو بہت بڑی خوشخبری دینگے ان خوشخبریوں کا سلسلہ چلتا آرہا ہے مگر عوام کے یہاں صف ماتم ہی بچھا رہتا ہے۔

گزشتہ روز بجٹ پیش ہونے کے بعد عوامی اظہار سب نے دیکھا کہ انہوں نے بجٹ کے متعلق کیا رائے دی جبکہ تاجر برادری نے بھی وہی شکوے دہرائے کھل ملاکر بات یہ ہوئی بجٹ پالیسی مرتب کرنے کا طریقہ کار وہی اور خوشی کی نوید سنانے کا بھی وطیرہ پرانا ہی ثابت ہوا۔ بہرحال گزشتہ روز اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کی وزیراعظم اورکابینہ نے مخالفت کی جس کے بعد ان سب پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔

ہم نے کل گروتھ بجٹ پیش کیا ہے اور ہمارا چیلنج ہے گروتھ کو مستحکم کرنا ہے، برآمدات بڑھا کر ہمیں ڈالر کمانے ہیں، آئندہ مالی سال 500 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کریں گے جبکہ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بڑے ریٹیلرز کی 1500 ارب کی سیل ہے، تمام بڑے اسٹورز پر سیلز ٹیکس لگانا ہے، صارفین پکی پرچی لیں گے تو انعام دیں گے، ترکی اور باقی ملکوں میں ایسی کامیاب اسکیمیں آئیں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں 70 سال سے غریب کو قرضہ نہیں ملا اور تربیت نہیں ملی، 70 سال سے چھوٹے کاشت کار کو کچھ نہیں ملا، کمرشل بینکوں سے چھوٹے فلاحی بینکوں کو قرضے دیں گے، پہلے مرحلے میں 40 لاکھ لوگوں کو روزگار دیں گے اور چھوٹے کاشت کار کو ڈیڑھ لاکھ روپے دیں گے.

جب کہ بینکوں کو چھوٹے کاشت کار اور غریبوں کی لسٹیں بھی دیں گے، اپنی چھت کے لیے 20 لاکھ روپے تک قرضہ دیں گے اور غریب کسان کو 5 لاکھ روپے تک قرضہ دیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان فوڈ ڈیفیسٹ ملک بن چکا ہے، ہم جو چیزیں ایکسپورٹ کرتے تھے اب وہ امپورٹ کررہے ہیں، ہم دالیں، گندم اور چینی بھی امپورٹ کررہے ہیں، ہم نے اپنی فصلوں پر توجہ نہیں دی اب اس پر توجہ دیں گے۔وفاقی حکومت کی جانب سے برآمدات کو کس طرح بڑھایاجائے گا اور کیا حکمت عملی مرتب کی جائے گی اس حوالے سے کوئی چیز واضح نہیں ہے اول روز سے یہ کہاجارہا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت اوپر آئے گی جب ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا سرمایہ کار جب پاکستان کا رخ کرینگے تو پاکستانی روپیہ مستحکم ہوگا اور اس طرح سے ڈالر کماکر خسارے سے نکلا جاسکتا ہے.

حالانکہ اب بھی بہت بڑے مواقع پاکستان میں موجود ہیں جس سے سرمایہ کاری کے شعبے کو وسعت دی جاسکتی ہے بشرط یہ کہ حکمران بعض معاملات پر مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوتے ہوئے اقرباء پروری ،من پسند سیاسی شخصیات جو بنیادی طور پر بیوپاری ہیں ان کو اپنی معاشی پالیسی سے دور رکھتے ہوئے مشاورت نہ کریں بلکہ ماہرین معیشت کی ایک بڑی کھیپ جو ملک میںموجود ہے ان سے تجاویز طلب کریں کہ ہم اپنے شعبوں میں کس طرح اصلاحات لاکر اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کریں .

اور بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکیں ،اگر میکنزم بنایاجائے تو یہاں بہت بڑامعاشی انقلاب ضرورآئے گا جبکہ عام لوگوں کی زندگی میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آئے گی اور عوام پر ٹیکس سمیت دیگر بوجھ کم ہوجائینگے بشرط معاشی پالیسی کی سمت کو بہتر بنانے کے ساتھ مستقل بنیادوں پر معاشی ٹیم تشکیل دی جائے بجائے ہر بار وزیر خزانہ کو تبدیلی کرکے معاشی تبدیلی کا خواب دیکھاجائے۔