|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2021

ملک میں معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس کے نظام کاشفا ف ہونا لازمی ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشی ترقی کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا اور نادہندگان کوٹیکس نیٹ کے اندر لاناہوگا جوبڑے سرمایہ کارہیں کیونکہ بڑے صنعتکار اب بھی ٹیکس نہیں دے رہے حالانکہ وہ ملک کے اندر بڑی صنعتیںلگاکر بے تحاشہ منافع کمارہے ہیں مگر اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس بالکل نہیں دے رہے ۔ ساتھ ہی سیاستدان اور اہم شخصیات کی بھی بڑی لسٹ ہے کہ کس طرح سے انہوں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو بہت کم ظاہر کیا ہے جبکہ یہی حضرات بجلی اور گیس اپنی صنعت اور کاروبار کیلئے بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں ۔

اور اس کا بل بھی ایمانداری کے ساتھ ادا نہیں کرتے جس کا خمیازہ عوام کو ٹیکسز کے بوجھ سے بھگتنا پڑتا ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ اس پر توجہ دینی چاہئے جس پر گزشتہ روزوزیرخزانہ شوکت ترین نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میںاظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کا فیصلہ وزیر خزانہ کی سطح پر ہوگا، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا جو ٹیکس نہیں دیں گے ، ان کے خلاف ایکشن لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی طرف سے دھمکائے جانے کے اختیارات کی شق ختم کردیں گے اور وزیر قانون سے کہا ہے کہ گرفتاری کی شق کو تبدیل کریں۔بہرحال شق میں تبدیلی بالکل کی جائے مگر بڑی شخصیات پر مہربانی نہ کی جائے اور بغیر کسی مصلحت کے ان شخصیات کو ٹیکس رینج میںلایا جائے اس طرح ایک بھاری رقم قومی خزانہ میں آئے گی جسے مختلف سیکٹرز پر خرچ کرکے محاصل کو بڑھانے میں مددملے گی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں عالمی مالیاتی فنڈ نے اچھا پیکج دیا تھا لیکن اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھاکہ حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا، مجموعی مالی خلاء 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ڈالرختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا۔شوکت ترین کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف نے شرح سود 13.25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی، شرح تبادلہ بھی 168 تک چلاگیا، غیرملکی قرضے کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دئیے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا، اس سے معیشت سست روی کا شکار ہوگئی۔آئی ایم ایف نے کسی دور میں بھی پاکستان کے ساتھ مہربانی نہیں کی بلکہ سود سمیت قرض کی رقم وصول کی اورآج تک ملک قرضوں پر چل رہا ہے جس سے نکلنے کیلئے پالیسی تلاش کی جائے تاکہ آئی ایم ایف کے چنگل سے ملک نکل سکے اور معیشت کو اپنی پیداوارانہ صلاحیت کے ساتھ آگے بڑھایاجا ئے جس سے ہر طبقہ کا بھرپور فائدہ ہوگا۔