بلوچستان اسمبلی نے مالی سال 2021-22کابجٹ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کرلیا،یہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اور اسمبلی کے احاطے اور باہر بھی جو بدمزدگی ہوئی ،یہ بھی اس خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی شخصیات کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہتا تھا کہ بلوچستان میں کم ازکم دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی غیرمناسب رویہ اسمبلی کے اندر نہیں اپنایا جاتابالآخر اب بلوچستان بھی اس دوڑ میںشامل ہوگیا اب یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ آگے چل کر اس طرح کا سیاسی رویہ دیکھنے کو ملے گا یا نہیں لیکن ایک کلچر جب پروان چڑھنے لگتا ہے تو اسے روکنا مشکل ہوجاتا ہے بلکہ باتیں بہت آگے تک نکل جاتی ہیں اور اس سے پورے سیاسی کلچر پر انتہائی منفی اور برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ سوچنا اب یہاں کی سیاسی شخصیات اور قبائلی عمائدین کا کام ہے کہ وہ اس واقعہ کو نظر انداز کرکے آگے آئینی وقانونی طریقے سے اپنی جنگ ایوان کے اندر لڑیں نا کہ کسی طرح کا غیر مہذبانہ رویہ اپنائیں جس سے آنے والی نسل جنہیں سیاسی بھاگ ڈور سنبھالنا ہے وہ ماضی کی روایات کو بھول کر اس نئی پیداہونے والی منفی سیاسی کلچر کو اپنائیں۔ بہرحال پہلے بھی اس کا تذکرہ کیاجاچکا ہے کہ دونوں فریقین کی جانب سے غلطیاں ہوئیں ہیں اول تو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان احتجاج کے پہلے روز ہی اپوزیشن سے بات چیت کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیتے جو باقاعدہ بات چیت کو آگے بڑھاتی اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ہر ممکن تعاون کرتی تاکہ حکومت پر ملبہ نہ گرتا اور اپوزیشن ارکان ہی صرف ایوان کے اندر موجود ہوتے اور اپنا پُرامن احتجاج ریکارڈ کراتے اور کسی بھی طرح کا تشدد کا راستہ نہ اپناتے کیونکہ بعض ویڈیو زمیں یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت واپوزیشن اراکین کے علاوہ غیرمتعلقہ افراد کی بڑی تعداد اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوئی تھی اور یہ کون تھے اس کا تعین کرنا ابھی باقی ہے ،صرف اسے اپوزیشن پر نہیں ڈالاجاسکتا اس کی شفاف تحقیقات کاہونا ضروری ہے تاکہ حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان کا سینئر صحافیوں کے وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسمبلی میں پیش آنیوالے واقعے پر اسپیکربااختیار ہیں ، پارلیمانی کمیٹی بناکر معاملے کو حل کریں۔
بلوچستان اسمبلی کا ایوان فیصلہ کرے کہ ایوان کو کس طرح چلاناہے ، اسپیکر عبدالقدوس بزنجوکو تبدیل نہیں کیاجارہا، اپوزیشن ذمہ داری کامظاہرے کرتے ہوئے ایوان میں اپنے تحفظات پیش کرے ، سڑکوں اورتھانوں میں مسائل حل نہیں ہوتے ، اسمبلی کا تقدس پامال کرنے پر اسپیکر کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ۔ اسمبلی واقعہ میں سیکیورٹی کے معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں ، واقعے میں جو بھی سرکاری اہلکار ملوث ہوا، ان کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جس طرح سے اپنا مؤقف سامنے رکھ دیا ہے ہم صرف اسی پہلو پر ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ تحقیقات کی شفافیت کا یقینی ہونا ضروری ہے اور ملوث افراد کو سامنے لانا چاہئے تاکہ کسی بھی سیاسی شخصیت کی بدنامی نہ ہو چاہے وہ حکومت یااپوزیشن سے تعلق رکھتا ہو ۔
اس لئے ضروری ہے کہ اس گتھی کو سلجھایاجائے کیونکہ اگر معاملے کو محض مقدمہ واپس لینے سے حل کرکے ٹال دیاگیا تو یہ طعنہ بلوچستان کے اراکین اسمبلی ایک دوسرے کو دیتے رہینگے کہ بلوچستان کی روایات کی پامالی کس فریق نے کی اور پھر اسی طرح سے معاملہ الجھتارہے گا اور پھر تشدد سے آگے چل کر گالم گلوچ تک باتیں پہنچ جائینگی اس لئے اس خطرناک اور بدنام سیاست سے بلوچستان کو بچانا موجودہ اراکین کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ دونوں فریقین سنجیدگی کے ساتھ اس حوالے سے نہ صرف سوچیں گے بلکہ اپنے قدیم اور صدیوں پرانی روایات کو برقرار رکھنے کیلئے کردار ادا کرینگے۔