|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2015

صنعاء:  سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے 200طیاروں نے یمن کے سات شہروں بشمول،صنعاء، صدا اور عدن میں بمباری کی اور حوثی باغیوں کے ٹھکانوں اور پلوں کو نشانہ بنایا، سعودی مسلح افواج کے ایک ترجمان نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ فضائی بمبار طیاروں نے بعض پلوں کونشانہ بنایا جن کے وہ اسلحہ اور میزائل ملک کے ایک علاقے سے دوسرے علاقوں تک آزادانہ طریقے سے لے جاتے تھے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سام چھ (SAM 6)میزائل کے ٹھکانے کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا اور اس کو تباہ کیاگیا، اس طرح اسلحہ کے ذخیرہ کو بمباری سے تباہ کیاگیا، سب سے اہم ترین کارروائی سڑکوں اور پلوں کے جال کو نشانہ بنایاگیا تاکہ حوثی باغیوں کی نقل وحرکت کو روکا جائے، دوسری جانب حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فضائی بمباری میں گزشتہ دو دنوں میں چالیس افراد ہلاک ہوئے، ان میں ایک ڈاکٹر اور خاتون شامل ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض مکانات کو بھی رہائشی علاقوں میں نشانہ بنایاگیا، سعودی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ یمن کے سات شہروں پر حملے کئے ،ان سنی قبائل کو حوثی باغیوں سے جھڑپ میں اکیس باغی ہلاک ہوگئے، ادھر مصر نے اپنی بحریہ باب المندوب پہنچا دی ہے اور وہ آبنائے عدن کا کنٹرول سنبھالے گا تاکہ تجارتی جہازوں اور آئل ٹینکر کی آمدورفت میں خلل نہ پڑے، ادھر ایران پر تنقید کرنے پر ترکی کے صدر کو ایران میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ترکی کے صدرنے کہا تھا کہ ایران پورے خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، ایران کے اس طرزعمل سے خطے کے تمام ممالک بشمول ترکی اور سعودی عربیہ ناراض ہیں ، یہی حال گلف کے ممالک کا ہے جو ایران کے فوجی اور سیاسی کردار سے شاکی ہیں ترکی کے صدر پر ایران کے وزیرخارجہ نے تنقید کی ہے ادھر ایران کے ایک رکن اسمبلی نے دھمکی دی ہے کہ یمن سعودی عرب کے خلاف سام میزائل استعمال کرسکتا ہے جو 500کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے، یہ سام میزائل روس نے ایران کو دیئے تھے جو آج کل یمن پہنچائے گئے ہیں، ایرانی رکن اسمبلی کا دعویٰ ہے کہ وسطی سعودی عرب میں یہ میزائل شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، دریں اثناء یمنی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ صنعا شہر پر انہوں نے سعودی عرب کے ایک ڈرون طیارے کو مارگرایا ہے سعودی عرب نے اس کی تردید کی ہے ۔ دریں اثناء یمن کے وزیرِ خارجہ ریاض یاسین کا کہنا ہے کہ ملک میں حوثی باغیوں کی جارحیت روکنے کے لیے کارگر فضائی حملے درکار ہیں لیکن انھیں باغیوں کی پیش قدمی رکتے ہی ختم ہو جانا چاہیے۔مصر کے شہر شرم الشیخ سے بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں ریاض یاسین کا کہنا تھا کہ سعودی قیادت میں فوجی اتحاد کے یمنی سرزمین پر فضائی حملے جتنا جلدی ممکن ہو ختم ہونے چاہییں۔ یمنی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اگر ان حملوں کے مطلوبہ نتائج نکلتے ہیں اور حوثی باغیوں کی پیش قدمی رک جاتی ہے تو یہ بمباری دنوں بلکہ گھنٹوں میں رک سکتی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ملک میں اس غیر ملکی عسکری کارروائی سے کوئی بھی خوش نہیں لیکن یمن کو ایران نواز حوثیوں کی جارحیت روکنے کے لیے اپنے ہمسایوں کی مدد لینے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ انھیں دھچکا پہنچایا جا سکے۔ریاض یاسین نے کہا کہ ان کے پاس اب تک ہونے والے حملوں میں کسی یمنی شہری کی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار باغی ہوں گے جنھوں نے یہ بحران پیدا کیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اگر فضائی حملے باغیوں کی پیش قدمی نہ روک سکے تو کیا عرب رہنما زمینی فوج یمن بھیجنے پر تیار ہوں گے یا نہیں۔سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے لیکن وہ ابھی وہاں زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ادھر بدھ کو یمن میں حوثی باغیوں کی عدن کی جانب پیش قدمی کے بعد فرار ہونے والے یمنی صدر عبدالربوہ منصور ہادی ریاض پہنچ گئے ہیں۔سعودی حکام کا کہنا ہے کہ یمنی صدر جمعرات کو سعودی دارالحکومت پہنچے ہیں اور وہ وہاں سے مصر میں عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کرنے جائیں گے کیونکہ وہ اب بھی یمن کے قانونی صدر ہیں۔یمن کے صدر کی درخواست پر ہی سعوری عرب ، بحرین، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات عملی طور پر یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یمن میں جاری اس آپریشن کو سوڈان، مراکش، مصر اور پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ادھر ایران نے یمن میں حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک’خطرناک قدم‘ قرار دیا ہے جبکہ ترکی نے کہا ہے کہ ایران علاقے میں غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے یمن میں فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایران کا موقف ہمارے لیے، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے لیے تکلیف دہ بن گیا تھا۔یہ بالکل ناقابل برداشت ہے اور ایران کو اے دیکھنا ہو گا۔