وفاقی وصوبائی بجٹ میں عوام کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ جب ان سے بجٹ کے متعلق رائے لی جاتی ہے تو ان کی جانب سے ایک ہی جواب آتا ہے کہ عوام کیلئے کچھ نہیں ہے، ہمارے حصے میں مہنگائی،بیروزگاری، صحت، تعلیم سمیت کوئی بھی سہولیات نہیں آتیں اور یہ ایک مخصوص طبقہ کیلئے ہی ہوتا ہے جبکہ بجٹ کے اعدادوشمار وبجٹ تقاریر تو عوام کی اکثریت سنتی ہی نہیں ہے کیونکہ لمبی تقاریر سے پہلے ہی وہ تنگ آچکے ہیں اس کی بنیادی وجہ وہ وعدے دعوے ہیں جو ہر وقت ان کے ساتھ جلسے جلوس اور دیگر عوامی اجتماعات میں کئے جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے چلتا آرہا ہے اس لئے یہ کہنا کہ عوام ہمارے دور حکومت سے بہت خوش تھے اور آج بیزار ہیں بالکل ہی ایسا نہیں ہے صرف کم وبیش مہنگائی سمیت دیگر مسائل میں فرق زیادہ ہے دیگر عوام کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریب کے لیے ہے جبکہ بجٹ ترمیم پر چند ایک کے علاوہ کسی نے تقریر نہیں کی۔ ایک بجٹ پیش کیا اور پھر بحث کو سمیٹا لیکن یہاں پھر تقریریں شروع ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں 74 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھر ملیں گے، صحت کارڈ ملے گا تو یہ حزب اختلاف والے تو فارغ ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ بجٹ مکمل طور پر غریب کے لیے ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ فنانس بل میں کچھ ترامیم کیں۔ ہم کام کرنے والے ہیں صرف باتیں نہیں کرتے۔ حزب اختلاف نے ترامیم پر کم بات کی تقاریر کی گئیں لیکن ہم نے جو اعداد و شماردیے ہیں ان پر عمل کر کے دکھا دیں گے۔ مہنگائی صرف 7 فیصد ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
زراعت پر خرچ نہیں کریں گے تو کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنا پڑیں گی۔ ہم زراعت پر 150 ارب روپے لگا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ نہیں کیا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آئندہ چند سالوں میں نیچے تک خوشحالی آئے گی۔ آپ 20 ارب ڈالر کا بجٹ خسارہ چھوڑ گئے جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔انہوں نے کہا کہ قصداً ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے انہیں گرفتار کیا جائے گا۔
کھاد پر ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کر رہے لیکن ہم غربت کے لیے کم کریں گے۔ کورونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت میں منفی گروتھ ہوئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کی طرف رجوع کیاجائے تو موجودہ وزیرخزانہ ہی اس وقت اس منصب پر موجود تھے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت بھی یہی تقاریر اور وعدے شامل تھے جو آج شوکت ترین کررہے ہیں اس لئے اداریہ کے ابتداء میں ذکر کیا گیا تھا کہ غریب عوام طفل تسلیوں سے تنگ آچکی ہے کیونکہ جب وہ اشیاء کی خریداری کیلئے جاتے ہیںتو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں
مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی ہے کل بھی غریب کیلئے بجٹ نہیں تھا اور آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ وزیرخزانہ شوکت ترین خود فرمارہے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں عوام کو ملیں گی اور حزب اختلاف تو فارغ ہوجائے گی ۔یہی ہماری تاریخ رہی ہے کہ آنے والے وقت میں یہی حزب اختلاف اقتدار میں ہوگی اور حزب اقتدار حزب اختلاف میں ہوگی اور یہ بھی ایک تاریخ کا حصہ ہے کہ جو آج حکومتی بنچوں پر براجمان ہیں کل وہ کسی اور جماعت کے ذریعے حکومتی بنچوں پر براجمان دکھائی دینگے اس لئے ہر وقت عوام ہی درمیان سے فارغ ہوجاتی ہے سیاسی اشرافیہ کبھی بھی فارغ نہیں ہوئی ہے تاریخ یہی بتاتی ہے۔