|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2021

کوئٹہ; سیکرٹری وزارت انسداد منشیات کیپٹن (ر) اکبر حسین درانی تمغہ امتیازاینٹی نارکوٹکس فورس بلوچستان کے کمانڈر بریگیڈیئر عاقب نذیر چوہدری سمیت دیگر نے کہا ہے کہ منشیات جیسی لعنت کو معاشرے سے َختم کرنے کے لئے اساتذہ کرام ، والدین اور علماء کرام ، غیر سرکاری تنظیموں سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔منشیات قوم کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

اس وقت پاکستان بھر میں 90 لاکھ نشے کے عادی افراد ہیں۔ آنے والے سال میں پاکستان کو منشیات سے پاک ملک بنا دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کچھ موڑ میں اینٹی نارکوٹکس فورس بلوچستان ریلوے پولیس، ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے صوبے بھر میں انسداد منشیات کارروائیوں کے دوران پکڑی جانے والی 5 ارب 77 کروڑ 34 لاکھ روپے مالیت کی 42 ٹن منشیات اور 275 شراب کی بوتلیںنذر آتش کرنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

قبضے میں لی جانے والی42 ٹن منشیات جس میں ہیروئن 4.3ٹن، چرس 21 ٹن، افیون10.5 ٹن ¾مارفیون 4 ٹن، ایسٹک 2.03ٹن لیٹر، میتھ ایمفیٹامائن 393 کلو گرام دیگر منشیات 950 کلو ،ریلوے پولیس کی جانب سے قبضے میں لی جانے والی 13 کلو چرس، ایکسائز کی جانب سے چرس 296 کلو، 280 گرام آئس، شراب275 بوتل سمیت دیگر ممنوعہ سامان نذر آتش کیاگیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت انسداد منشیات کیپٹن (ر) اکبر حسین درانی تمغہ امتیاز نے کہا کہ اے این ایف کا عملہ 4 حوالوں سے ملک بھر میں کام کررہا ہے کہ منشیات کی سپلائی کو ختم کیا جائے اس کی فروخت کو کم کیا جائے۔

اور نشے کے عادی افراد کو کم سے کم سپلائی فراہم ہو اور متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لئے کام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام چیزیں قانون کے زمرے میں آتی ہے ہم اسی حوالے سے کام کررہے ہیں۔ منشیات کا ناسور قوم کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ علماء کرام کی خدمات حاصل کرکے نماز کے اوقات اور نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران عوام کو شراب کے ساتھ ساتھ دیگر منشیات جس میں چرس، بھنگ، کرسٹل، آئس کے نشے کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی دیں۔

اور والدین سمیت اساتذہ کرام بھی اپنے بچوں پر نظر رکھے طالب علم پڑھتے وقت اپنی تھکاوٹ اور نیند دور کرنے کے لئے نشے کا بار استعمال کرکے اس کا عادی ہورہے ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنی نوجوان نسل جوکہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر ڈاکٹر ، انجینئرز بن کر نکل رہے ہیں۔ ان کے فارغ ہونے پر بلڈ ٹیسٹ کرنے چاہئیں تاکہ پتہ چلے کہ وہ نشے کے عادی تو نہیں اگر ایسا ہے تو ہم یہ جو تعلیم کے ذریعے نوجوان پیدا کررہے ہیں وہ نشے کے عادی افراد سے زیادہ خطرناک ہے۔

اس لئے میں نے اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی کا دورہ کرکے ان کے حکام بالا کو کہا ہے کہ جو بھی طالب علم داخلے کے لئے آئے اس سے ایک فارم دستخط کروائیں اگر ان کا بچہ منشیات کی سپلائی ، استعمال یا فراہمی میں ملوث پایا گیا تو اس کو تعلیمی ادارے سے فارغ کردیا جائے گا۔ اور اپنا کورس مکمل کرنے پر ان کا بلڈ ٹیسٹ کیا جائے ۔