افغانستان اس وقت عالمی سیاست کا محورومرکز بناہوا ہے اسی تناظر میں دنیا کی عالمی طاقتیں صف بندی کرنے جارہی ہیں جس طرح ماضی میں دو عظیم جنگوں کے درمیان بڑی طاقتوں کے درمیان اتحاد تشکیل دیئے گئے تھے جس کے بعدسوویت یونین کی افغانستان میں آمد اور نائن الیون واقعہ کے بعد پھر اسی طرح کی ایک بڑی اتحاد تشکیل دی گئی۔
سوویت یونین کو افغانستان سے باہر نکالنے کیلئے باقاعدہ القاعدہ اور طالبان جیسی بڑی تنظیمیں تشکیل دی گئیں اور بالآخر امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر انہی تنظیموں کے ذریعے اپنی گرفت رکھنے میں کامیا\ب ہوگئے۔ جس کے بعد نائن الیون کاواقعہ رونما ہوا تو پھر سے عالمی اتحاد عمل میںلائی گئی جس کی سرپرستی امریکہ نے ہی کی اور نیٹو کے نام سے بڑے ممالک اس میں شامل ہوگئے اور پاکستان بھی اس جنگ کا حصہ بنااور القاعدہ اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کیلئے گرینڈآپریشن کا آغاز کیا گیا ۔
بہرحال امریکہ نے اس دوران پاکستان پر جو مہربانیاں کیں اور جتنی بھی سرمایہ کاری کی اور رقم دیئے محض افغان وار ہی اس کی وجہ تھی وگرنہ امریکہ نے کبھی بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کی جو ایک دوست ملک کی حیثیت سے کرنی چاہئے تھی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چین نے پاکستان میں جنگی مفادات کے بغیر ایک دوست ملک کی حیثیت سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے اور آج بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر چین کے منصوبے چل رہے ہیں۔ اب باربار وزیراعظم عمران خان امریکی دباؤ کا اظہار کررہے ہیں.
اور چین کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعلقات میںکسی قسم کی کمی نہیں لاناچاہتے اس کی وجہ افغانستان کا معاملہ ہے کیونکہ امریکہ اور نیٹو افواج کا انخلاء جلد ہی شروع ہوجائے گا مگر امریکہ افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنے اور مزید کارروائیوں کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنی زمینی وفضائی حدود انہیں دے جس پر اب تک پاکستان کی جانب سے مکمل طور پر انکار کیا گیا ہے اور چین کے ساتھ قربت ختم کرنے کا معاملہ بھی اسی تناظرمیں شامل ہے ۔اس تمام صورتحال پر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں چینی میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرا شروع سے یہی مؤقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں ہے۔
امریکہ نے افغان مسئلے کو عسکری قوت سے حل کرنے کی بڑی غلطی کی۔ افغانستان کی تاریخ ہے کہ کوئی افغانوں کو تابع نہیں کرسکا۔ اگرافغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو پاکستان سب سے زیادہ متاثرہوگا۔ ہم ہرصورت افغانستان کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات پر تشویش ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سے دنیا ایک مرتبہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ پاکستان کے چین کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔
پاکستان کسی کے دباؤ میں آکر چین کے ساتھ تعلقات کو کبھی ختم نہیں کرے گا۔چین پاکستان کی مختلف شعبوں میں مدد کر رہا ہے جبکہ چین اور پاکستان کے تعلقات گہرے اور پرانے ہیں۔ سی پیک ایک منفرد ماڈل ہے اور اس سے خطے کو فائدہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بہترین نظام ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ آئندہ ہفتے گوادر کا دورہ کر رہا ہوں وہاں سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لوں گا۔ ہم نے سی پیک منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی۔ سی پیک کا اگلہ مرحلہ پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔
چین نے ہر وقت ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی۔بہرحال وزیراعظم کی جانب سے جو بیانیہ سامنے آرہا ہے وہ اپنی جگہ بہترین اور زبردست ہے کیونکہ پاکستان نے نائن الیون کے دوران جس طرح امریکہ کے ساتھ اتحادی کے طور پر شامل ہوا تو پاکستان نے بڑے پیمانے پر نقصانات اٹھائے ،جانی اور مالی حوالے سے پاکستان کو بڑی قیمت چکانی پڑی اس لئے پاکستان اب مزید بحرانات کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے آگے چل کر کیا حکمت عملی اپنائے گی اور پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت اس حوالے سے درمیانہ راستہ نکالتے ہوئے آنے والے مشکل وقت سے پاکستان کو بچانے میں کامیاب ہوگی۔ یہ اب مکمل بیانیہ کی صورت پر منحصر ہے جس پر سیاسی وعسکری قیادت کے درمیان اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے دیکھتے ہیں کہ متفقہ طور پرکیا اسٹرٹیجی اپنائی جائے گی ۔