|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2021

افغانستان کے صوبائی دارالحکومت قلعہ نو سے اب یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ طالبان آزادانہ گھوم رہے ہیں اور موٹرسائیکلوں پہ سوار ہو کر شہر کا معائنہ کررہے ہیں جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد یا تو اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔

یا پھر وہ قریبی اضلاع یا صوبہ ہرات میں نقل مکانی کررہے ہیںجبکہ شمال میں واقع صوبہ باد غیس کے اندر افغان فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے لیکن اس کے باوجود طالبان کی آزادانہ نقل و حرکت دکھائی دے رہی ہے۔یکم مئی کے بعد سے قلعہ نو پہلا صوبائی دارالحکومت ہے جس پر بدھ کو طالبان نے قبضہ کرلیا تھا لیکن پھر افغان کمانڈوز کئی سرکاری عمارتیں طالبان کے قبضے سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان فوج کی اہلیت پر سوالیہ نشانات تیزی سے ثبت ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ کیا وہ اکیلے طالبان کا مقابلہ کرسکے گی؟عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بادغیس کی صوبائی کونسل کے رکن ضیا گل حبیبی کا کہنا ہے کہ طالبان کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام اضلاع طالبان کے قبضے میں ہیں اور لوگ شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ضیا گل کے مطابق تمام سرکاری ادارے اور دکانیں بند ہیں جبکہ لڑائی کی خبریں تسلسل کے ساتھ مل رہی ہیں۔واضح رہے کہ مئی کے مہینے سے طالبان شمالی افغانستان کے اکثر اضلاع کا قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ صوبہ ہرات میں بھی دو اضلاع طالبان کے قبضے میں ہیں۔بہرحال جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور افغان فورسز کے کمانڈر سرنڈر کرتے جارہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران طالبان بہت جلد افغانستان کے بعض دیگر اضلاع پر کنٹرول حاصل کرلینگے جس میں کابل بھی شامل ہے مگر یہ افغانستان اور خطے کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

کیونکہ افغان فورسز کی جانب سے بھی مزاحمت جاری ہے جبکہ دیگر فریقین بھی مسلح ہوچکے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ افغانستان ایک بڑی خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے اور اس میں امریکہ کی بدنیتی کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ دوحہ امن معاہدے پر کسی طرح بھی عمل نہیں ہورہا ۔ اگر امریکہ امن معاہدے کے تحت معاملات کو آگے بڑھاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بگرام جو سب سے بڑا ائیربیس ہے اسے امریکہ نے خالی کردیا اور بڑے پیمانے پر جنگی سازوسامان بھی افغانستان میں چھوڑ دیا جو کسی بھی فریق کے ہاتھ لگے وہ ان کا استعمال اپنے دوسرے حریف کیخلاف کرے گا اور تشویشناک عمل یہ ہے۔

کہ اب افغان آپس میں دوبارہ لڑرہے ہیں جو اس سے قبل 80اور 90کی دہائی میں ہوا تھا اور جو بھیانک نتائج افغان عوام سمیت خطے کے ممالک نے بھگت چکے ہیں وہ سب کے سامنے ہے ۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ داعش سمیت دیگر بڑی کالعدم تنظیمیں افغانستان میں جنگ تو لڑینگی مگر ساتھ ہی انہیں فرار ہونے کیلئے قریبی ممالک کا رخ کرنا پڑے گا جوبہت بڑے خطرے کا باعث بنے گا کیونکہ وہ دہشت گردی پھیلائینگے۔ البتہ اب یہ ذمہ داری خطے کے بڑے ممالک کی بنتی ہے کہ افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانے کیلئے مشترکہ طورپر ایک بڑا اجلاس طلب کریں۔

اور حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے عالمی قوتوں سے بات چیت کریں وگرنہ صورتحال بعد میں خراب ہونے کی وجہ سے خطے کے ممالک تو متاثر ہونگے مگر امریکہ کی خانہ جنگی کی سازش خود عالمی برادری کیلئے بڑے خطرے کا باعث بنے گی۔ اس لئے یہ سوچ کر تمام تر معاملات افغانستان کے اندر چھوڑ کرجانا کامیابی ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے اور اس کی بہت سی مثالیں نائن الیون کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے دہشت گردی کی صورت میں دیکھی ہیں۔