|

وقتِ اشاعت :   July 12 – 2021

مستونگ: بلوچستان نیشنل پارٹی ڈسٹرکٹ مستونگ کے زیراہتمام پڑنگ آباد کلی رودریس میں سینکڑوں قبائلی رہنماوں پر مشتمل پرجوش شمولیتی پروگرام کے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔جس کے مہمان خاص بی این پی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ،اور اعزازی مہمان خاص بی ایس او کے مرکزی چیئرمین جہانگیر منظور بلوچ تھے۔

شمولیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ،بی ایس او کے مرکزی چیئرمین جہانگیر منظور بلوچ بی این پی کے سینٹرل کمیٹی کے رکن غلام نبی مری ،ملک عبدالرحمن خواجہ خیل ضلعی جنرل سیکرٹری جمیل بلوچ ڈپٹی جنرل سیکرٹری چیئرمین عبدالقدیر محمدحسنی سیکرٹری اطلاعات انجینئر امیر جان فنانس سیکرٹری میر عبدالغفار مینگل کسان و ماہگیر سیکرٹری اکرم لودھی لیبر سیکرٹری میر فرید مینگل بی ایس او کے سینٹرل کمیٹی کے رکن آغا عدنان شاہ ذونل آرگنائزر عصمت بلوچ نے نئے شامل ہونے والے پارٹی کے دوستوں کو جس میں ڈاکٹر شبیر احمد لہڑی امیرحمزہ لہڑی نجیب اللہ لہڑی اور ساتھ میں شامل ہونے والے 60 افراد پر مشتمل دوستوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے۔

اسی امید کے ساتھ کہ نئے شامل ہونے والے دوست پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں پارٹی کے سہہ رنگ کے جھنڈے اور پارٹی پیغام کو گھر گھر پہنچائینگے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان کی وہ واحد قوم پرستی پارٹی ہیں جو قائد بلوچستان سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں بلوچستان کے ساحل وسائل،لاپتہ افراد کے بازیابی، اور بلوچستان کے دیگر ایشوز پر مسلسل جدوجہد کرنے پر بی این پی بلوچستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہیں 2018 کے الیکشن میں جس طرح بی این پی کو عوام نے جوش و جزبے سے ووٹ دیا لیکن بی این پی کے عوامی طاقت سے خوفزدہ نادیدہ قوتوں نے جس طرح بی این پی کی مینڈیٹ کو راتوں رات چوری کرکے اپنے من پسند امیدواروں کو منتخب کیئے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی انہوں نے کہا کہ ہر حکومت نے بلوچوں کو مذاکرات کے نام پر دھوکا دیا۔ ۔

بلوچ قوم اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ مذاکرات سے ان کی مسائل حل ہونگے بی این پی کے چھ نکات جس میں سرفہرست لاپتہ افراد کا بازیابی ساحل و سائل کی حفاظت ہے اس پر بے اختیار حکومت نے کتنا عمل درآمد کیا ہے اور اب بلوچوں کو مذاکرات کے نام پر آمادہ کرنے کی احمقانہ کوششیں کیا جارہا ہیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جارہا ہیں کہ ہم حقیقی بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کے ٹیبل پر لارہے ہیں تاکہ بلوچ قوم کے ساحل و وسائل کو استحصالی طبقہ بآسانی سے لوٹ سکے ماضی میں بھی مزاکرات کے نام پر مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی انہوں نے کہا مزاکرات کے نام پر بلوچ قوم کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔