کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ پاکستا ن ڈیموکریٹک موومنٹ اگر ملک کے لوگوں کی نمائندہ ہے تو فوراً افغان مسئلہ پر کے پی کے اور کوئٹہ میںآل پارٹیز کانفرنس بلائے اور اگر پاکستان نئے حالات میں فریق نہیں ہے تو اقوام متحدہ کے ذریعے ریجنل کانفرنس بلائے جس میں پاکستان ،افغانستان، ایران، ازبکستان، تاجکستان، چین اور خطے کے دیگر ممالک شامل ہوں اور یہ طے کیا جائے کہ افغانستان کے اندر کے معاملات کو عدم مداخلت کی طرف لے جایا جائیگا اور قیام امن کیلئے فریقین پر دباؤ ڈالا جائے گا اس سے نہ صرف افغانستان میں امن آئے گا بلکہ نئے جنگ کے اثرات سے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک بھی محفوظ رہیں گے۔
یہ بات انہوں نے جمعرات کو بلو چ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتما م افغا نستا ن کے بد لتے حا لا ت اور بلوچستان پر اس کے اثرات کے عنوان سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار سے طا ہر خان ہزا رہ، ڈا کٹر دین محمد بزدار ، سا جد تر ین ایڈووکیٹ ،ڈاکٹر مارنگ بلوچ نے بھی خطاب کیا ، جبکہ سینئر سیاستدان سینیٹر فرحت اللہ بابر ویڈ یو لنک کے ذریعے سمینار میں شریک ہوئے تاہم فنی خرابی کے باعث خطاب جاری نہیں رکھے پائے۔
نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ افغانستان کے بد لتے حا لا ت کے پیش نظر بروقت پیش بندی کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے مگریہاں سیاسی جماعتیں خود آپس میں انتشار کا شکار ہیں ،انہوں نے کہا کہ افغان جنگ سے بلوچستان اور خیبر پختونخواء زیادہ متاثر ہوئے ہیںافغان جنگ کے نتیجے میں بلوچستان میں بھی خون بہایا گیا یہاں روایت شکنی اور فرقہ واریت ہوئی ہماری سرزمین پر اسلحہ کی بھرمار ہوئی ،تعلیم کے نظام کو برباد کیا گیا اور اب جب افغانستان میں حالات تبدیل ہورہے ہیں اس سے بھی ہماری سرزمین زیادہ متاثر ہوگی سیاسی کارکنوں کو افغانستان میں سامراج کے عزائم پر نظر رکھتے ہوئے ان موضوعات پر سیر حاصل بحث کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستا ن ڈیموکریٹک موومنٹ اگر ملک کے لوگوں کی نمائندہ ہے تو فوراً افغان مسئلہ پر کے پی کے اور کوئٹہ میںآل پارٹیز کانفرنس بلاے اور اگر پاکستان نئے حالات میں فریق نہیں ہے تو اقوام متحدہ کے ذریعے ریجنل کانفرنس بلائے جس میں پاکستان ،افغانستان، ایران، ازبکستان، تاجکستان، چین اور خطے کے دیگر ممالک شامل ہوں اور یہ طے کیا جائے کہ افغانستان کے اندر کے معاملات کو عدم مداخلت کی طرف لے جایا جائیگا اور قیام امن کیلئے فریقین پر دباؤ ڈالا جائے گا اس سے نہ صرف افغانستان میں امن آئے گا ۔
بلکہ نئے جنگ کے اثرات سے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک بھی محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غیر جمہوری حکومت نے 1973 ء میں بنے والے آئین میں جعلی آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری حکومت کو ختم کرنے کیلئے آئین میں 58 ٹو بی کو شامل کیاجسے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد آئین سے نکال کر ملک میں ہمیشہ کیلئے آمریت کا راستہ بند کیا گیاآمریت کا راستہ بندہونے پر ملک میں سیاسی جماعت ایجاد کرکے اقتدار میںلائی گئی انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس اسمبلی میں 1970ء کی دہائی میںاعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت تھی وہاں آج اکثریت سلیکٹڈ لوگوں کی ہے یہ لوگ قانون سازی کرنے کی بجائے نالی سازی کررہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں سیاسی کارکنوں کو نالی ، سڑک اور ٹرانسفارمر کے پیچھے لگادیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ حقیقی سیاسی وجمہوری قیادت کو صوبے کو درپیش بحرانوں اور آئندہ کے خطرات سے نکالنے کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ افغانستا ن کی موجودہ صورتحال انتہائی حساس معاملہ ہے اس پر ہم کو مل کر سوچنا ہوگا ، افغانستان میں گزشتہ چالیس سال سے جنگ جاری ہے۔
اچانک سامراجی قوت کا کئی ٹریلین ڈالر خرچ کرکے وہاں سے انخلاء سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اس کے براہ راست اثرات بلوچستان اور کے پی کے پر پڑیں گے۔ ڈاکٹر دین محمد بزدار نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا درست تجزیہ کرنا مشکل ہے۔
اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ، امریکہ کے انخلاء کے بعد تین طرح کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ایک صورتحال جو پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے وہ یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت بنائیں ، دوسری صورتحال میرے نزدیک یہ ہے جو انتہائی خطرناک ہے کہ طالبان اپنی جنگ جاری رکھیں گے مگر کابل فتح نہیں کرپائیں گے تیسری صورتحال یہ ممکن ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئے تو فغانستان میں گوریلا جنگ شرو ع ہوجائیگی۔