کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام گوادر سے لیکر ژوب تک بلوچستان کے حقیقی نمائندہ جماعت ہے نیشنل پارٹی کو پشتونخوا کی مدد سے پشتون نشین علاقوں کو اپوزیشن کا نا م دیکر ترقیاتی عمل سے محروم رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہے دراصل اپوزیشن کی آڑ میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لسانی بنیادوں ان علاقوں کو ترقیاتی عمل سے محروم رکھا جارہا ہے ۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز موسیٰ خیل‘لورالائی‘ژوب سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کی ایک وفد سے بات چیت کے دوران کہی ‘انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اپوزیشن کی آڑ میں جس طرح پشتون نشین علاقوں کو ترقیاتی عمل سے محروم رکھا جارہا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ علاقے حکومت میں والی وارث نمائندہ جماعت سے محروم ہوچکاہے جس کا بھر پور فائدہ نیشنل پارٹی اٹھار ہی ہے اور تعصب اور نفرت کی عینک پہن کر ان علاقوں کو اپوزیشن کے حلقوں کا نام دیکر دانستانہ طور پر ترقیا تی منصو بو ں سے محروم رکھ رہی ہے کیونکہ ہم تعصب کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے لیکن ہم پر اس سلسلے میں خامو شی توڑنے پر عوامی دباؤ ہے اب مزید ہمارے لیے خاموشی ممکن نہیں کیونکہ پشتون علا قوں سے منتخب نمائندے اپنے مفادات کے خاطر چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں انہوں نے کہاہے کہ جمعیت علماء اسلام پورے صوبے کی نمائندہ جماعت ہے جس میں کبھی بھی قوم زئی اور خیلی کی کوئی جگہ نہیں جس کی صوبے کی عوام گواہ ہے کہ ہمارے جماعت میں اس طرح تعصب کی سیاست نہیں بلکہ پورے بلوچستان کو ہم نے ہمیشہ اپناگھر سمجھا کیونکہ ہم بلوچستان کے والی وارث اور یہاں حقیقی عوامی جماعت ہے لیکن تعصب کی بدبودار سیاست کرنے والے نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ نے اپنے مفادات کی خاطر صوبے میں اس طرح کے مسائل پیدا کردئیے کہ جس پر مجبوراً ہمیں آواز اٹھانی پڑرہی ہے اس طرح کی علاقے اور قومیت کی بنیاد پر بدبودار سیاست پر ہم یقین نہیں رکھتے پورے بلوچستان کو ہم اپنا گھر سمجھتے ہیں تاہم کسی کے ساتھ بھی زیادتی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام گواہ ہے صوبے میں جاری میگا پروجیکٹ این ایف سی ایوارڈ کا حصول اور دیگر اہم معاملات ہماری سابق حکومت کا کریڈیٹ ہے جس میں گوادر سے لیکر ژوب تک ترقیاتی عمل کا ایک جال بچھادیا ہے جبکہ موجودہ حکومت ہمیں اپنے ترقیاتی عمل سے پریشان بیان کرتی ہے دراصل ہماری پریشانی کی بڑی وجہ یہاں ترقیاتی کام کا نہ ہونا ہے ان سے پریشانی ہمیں تب ہوتی کہ بلوچستان میں روڈوں‘ تعلیمی ادارے ‘میگا پروجیکٹس بنتے اور عوامی مسائل ہوتے جس طرح ہم نے صوبے کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے پانچ یونیورسٹیاں ‘ گرلز کالج ‘ ڈگری کالجز ‘کیڈٹ کالج روڈ کا جال پورے بلوچستان میں بچادیا تھا جس میں گوادر سے ژوب تک ترقیاتی عمل یکساں رہا جس نے موجودہ حکومت کی نیندیں حرام کر رکھی ہے موجودہ صو بائی حکومت میں جو ترقیاتی عمل تو دور کی بات حکومت کا اپنا ترقیاتی بجٹ اربوں روپے کے سر پلس میں جارہا ہے 30تاریخ 2013کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان کی چھٹی نمبر6307جوکہ تمام سیکرٹریز کیساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان کے پرنسپل سیکرٹری کو بھی ارسال کی گئی کہ مطابق اب تک 102پی سی ون محکموں نے جمع نہیں کرائے اس وقت تک ہم 30ارب روپے وفاق سے اوورڈراپ لیتے تھے لیکن ترقیاتی عمل نہیں روکوایا ہمیں اگر پریشانی ہے تو حکومت کی کارکردگی سے نہیں صوبے میں ترقیاتی عمل روکنے کی وجہ سے ہے جو کہ حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ مالی سال کے اختتام میں صرف تین مہینے رہ گئے ہیں ۔