|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2021

پاک افغان تعلقات میں بہتری اس نازک وقت میں انتہائی ضروری ہیں کیونکہ افغانستان میں اس وقت معاملات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں جس کا بارہا اشارہ دیاجا چکا ہے کہ امریکی اور نیٹوافواج کی انخلاء کے بعد کا افغانستان کا نقشہ مکمل بدل جائے گا اور یہی ہورہا ہے کہ کس طرح سے فریقین ایک دوسرے کے مدِمقابل لڑرہے ہیں۔

جن معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل ہونا تھا وہ بھی بھرپور کوششوں کے باوجود بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والے گزشتہ دنوں مذاکرات افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ناکام ہوئے جس سے یقینا سب کوبہت مایوسی ہوئی کیونکہ یہ مسئلہ صرف مذاکرات کا نہیں بلکہ افغانستان کو خونریزی سے روکنے کا ہے اور اس حوالے سے پاکستان نے پیشکش کی مگر افسوس افغان حکومت نے انکار کیا جس طرح سے افغان حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے اس سے افغانستان کے حالات مزید خراب ہونگے۔

افغان حکومت الزامات کی بجائے انٹرا مذاکرات پر توجہ دے اور شراکت داروں کو ساتھ بٹھاکر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے کہ کس طرح سے افغانستان میں افغان عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے دوحہ مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر بھی افغان حکومت نے تعاون نہیں کیا ۔

جس پر افغان طالبان نے ناراضگی کا اظہار کیا اور دیگر معاملات بھی اسی طرح کٹھائی میں پڑگئے جبکہ طالبان پیش قدمی کرکے آگے بڑھتے جار ہے ہیں اور افغان فورسز بھی مزاحمت کررہی ہیں مگر اس تمام تر صورتحال میں نقصان افغان عوام کا ہورہا ہے اس لئے دونوں فریقین کو چاہئے کہ طاقت کی بجائے مل بیٹھ کر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کریں اور افغانستان کو مزید خطرناک جنگ کی طرف دھکیلنے سے بچائیں وگرنہ یہ جنگی صورتحال پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گی جس کے انتہائی بھیانک نتائج خطے پر پڑینگے۔

لہٰذا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں فریقین افغان عوام کے مستقبل کا سوچیں کیونکہ عالمی طاقتوں نے جنگ سے کچھ حاصل نہیں کیا اور بیس سال بعد انہیں افغانستان سے واپس جانا پڑا مگرافغان عوام کو اپنی ہی سرزمین پر مستقل رہنا ہے اس لئے دونوں فریقین اپنے عوام کے روشن مستقبل پر توجہ دیں اور مذاکراتی عمل کے حوالے سے سوچیں۔ امید ہے کہ افغان حکومت لچک کا مظاہرہ کرے گی اور مذاکرات کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھانے کیلئے اپناذمہ دارانہ کردارادا کرے گی اور یہی توقع افغان طالبان سے ہے کہ وہ بھی طاقت کے ذریعے فتوحات حاصل کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے افغان عوام کی رائے سے ایک جمہوری حکومت کی تشکیل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ دنیا کی نظریں اس وقت افغانستان پر ہیں کہ حالات کیارخ اختیار کرتے ہیں اگر اسی طرح جنگی صورتحال رہی تو افغانستان میں خانہ جنگی شدت اختیار کرے گی جوکہ مستقبل کیلئے انتہائی نقصاندہ ہوگا۔