امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ اپنے علاقے کو واپس لینے سے پہلے افغان سکیورٹی فورسز کا پہلا کام طالبان کا زور کم کرنا ہے جبکہ دوسری جانب طالبان نے سپین بولدک میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کی تحقیقات کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان کی فوج طالبان کے خلاف اپنی جنگ کی حکمت عملی کا جائزہ لے رہی ہے اور کابل سمیت دیگر شہروں، سرحدوں اور اہم تنصیبات جہاں خطرہ زیادہ ہے، میں فوجیوں کی تعیناتی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
آسٹن نے سنیچر کو الاسکا میں صحافیوں کو بتایا کہ ’وہ زیادہ آبادی پر مشتمل علاقوں میں اپنی فورسز تعینات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ ان کا زور کم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔‘
آسٹن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانوں کے پاس پیش رفت کرنے کی صلاحیت اور استعداد ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق طالبان نے جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار میں سپین بولدک ضلع میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بین الاقوامی تحقیقات کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’تحقیقات کے لیے جو بھی علاقے میں جانا چاہے وہ جا سکتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ، ریڈ کراس ہو یا اقوام متحدہ یا پھر انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں، تحقیقات کر سکتی ہیں۔ ہم ان کے دورے کے لیے انہیں سہولیات فراہم کریں گے۔‘
طالبان کی جانب سے یہ بیان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے قندھار کے سپین بولدک ضلع پر قبضے کے بعد سینکڑوں رہائشیوں کو حکومت کے ساتھ رابطوں کے الزام میں حراست میں لے رکھا ہے اور کچھ قیدیوں کو قتل کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے مزید ایسی مظالم ڈھا سکتے ہیں۔‘
مقامی میڈیا کے مطابق طالبان نے ان رہائشیوں کی تلاش شروع کی تھی جن کے صوبائی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ رابطے تھے اور پھر 300 سے زائد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا تھا۔
سنیچر کو افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے کہا تھا کہ اسے اس علاقے میں قتل اور گرفتاریوں کی رپورٹس ملی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے ترجمان ذبیح اللہ فرہنگ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ الزامات ہیں، ہم تحقیقات کریں گے اور نتائج سامنے رکھیں گے۔‘