|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2021

طالبان کے روایتی گڑھ قندھار میں طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جاری لڑائی کے باعث ہزاروں کی تعداد میں خاندان نقل مکانی کر گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبائی محکمہ مہاجرین کے سربراہ دوست محمد دریاب نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران قندھار میں مقیم 22 ہزار سے زائد افغان خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔
دوست محمد دریاب کا کہنا تھا کہ کئی خاندان غیر مستحکم اضلاع سے محفوظ علاقوں کو نقل مکانی کر گئے ہیں۔
اتوار کو بھی قندھار شہر کے اطراف میں طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی جاری رہی۔
صوبہ قندھار کے نائب گورنر لالائی دستگیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سکیورٹی فورسز بالخصوص پولیس کی غفلت کے باعث طالبان شہر کے اس حد تک قریب آنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو منظم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تقریباً ایک لاکھ 54 ہزار کے قریب بے گھر ہونے والے افراد کے لیے مقامی حکام نے چار کیمپ قائم کر دیے ہیں ۔
قندھار کے رہائشی حافظ محمد اکبر نے بتایا کہ نقل مکانی کرنے کے بعد طالبان نے پیچھے سے گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔
محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے ہمیں جانے پر مجبور کیا ہے، میں اب اپنے خاندان کے 20 افراد کے ساتھ ایک کمپاؤنڈ میں رہ رہا ہوں جہاں ٹوائلٹ کی بھی سہولت نہیں ہے۔‘

قندھار کے رہائشیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ دنوں میں لڑائی میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔
قندھار سے نقل مکانی کرنے والے ایک شخص خان محمد کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ واقعی میں لڑنا چاہتے ہیں، تو انہیں صحرا میں جا کر لڑنا چاہیے، شہر تباہ نہ کریں۔‘
خان محمد کا کہنا تھا کہ اگر یہ جیت بھی گئے، پھر بھی خالی شہر پر تو حکمرانی نہیں کر سکتے۔
کابل کے بعد قندھار دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی چھ لاکھ 50 ہزار ہے۔
سنہ 1996 سے 2001 تک طالبان کے دور میں جنوبی صوبے قندھار کو اہم حکومتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔
خیال رہے کہ مئی کے آغاز سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کے اکثر علاقوں پر تیزی سے قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان افغانستان کے اکثر اضلاع اور سرحدی راہداریوں کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ متعدد صوبائی دارالحکومتوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ طالبان کے سپن بولدک اور دیگر شہروں پر قبضے کے بعد شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر پیٹریسیا گروسمن کا کہنا ہے کہ طالبان رہنماؤں نے شہریوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں غیر قانونی گرفتاریاں، قتل اور زبردستی بے دخلی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے شواہد سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔
علاوہ ازیں افغان سکیورٹی فورسز نے عید کے موقع پر صدارتی محل پر ہونے والے راکٹ حملوں میں ملوث چار طالبان جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے، جبکہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔