|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2021

توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور عراقی وزیراعظم مصطفیٰ القدہیمی پیر کو رواں برس کے آخر تک عراق سے امریکی فوج کے جنگی مشن کے اختتام کا اعلان کریں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ پیر کو دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس سال کے آخر تک امریکی ملٹری مشن کو صرف مشاورت اور تربیت تک محدود کر دیا جائے گا۔
عہدیدار کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز جنگ لڑ چکی ہیں اور اپنے ملک کی حفاظت کرنے کے ’قابل‘ ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ داعش کو ابھی تک خطرہ سمجھتی ہے۔
اعش نے ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی بڑے جان لیوا حملے کر سکتی ہے۔ گذشتہ ہفتے داعش نے بغداد کی ایک مارکیٹ میں سڑک کنارے نصب بم سے حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں کم از کم 30 افراد مارے گئے تھے اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
امریکہ اور عراق نے اپریل میں رضامندی ظاہر کی تھی کہ امریکی فوج کا کردار تربیت اور مشاورت کے مشن تک رہے گا اور فوج لڑائی میں حصہ نہیں لے گی۔ تاہم دونوں اطراف سے کردار کی منتقلی کے لیے ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوا تھا۔
یہ اعلان عراق میں 10 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات سے تقریباً تین مہینے پہلے کیا جا رہا ہے۔
عراقی وزیراعظم کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ عراق میں سرگرم ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نے حالیہ مہینوں میں امریکی فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ ہسپتال میں آتشزدگی کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتوں اور بڑھتے ہوئے کورونا کیسز نے اس قوم ک مایوسی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
الیکشن سے پہلے امریکی فوج کے جنگی مشن کے کے خاتمے کی تاریخ دینا مصطفیٰ القدہیمی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں عراق کی پوزیشن بہتر کرنے کا کریڈٹ مصطفیٰ القدہیمی کو جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ اردون کے بادشاہ عبداللہ دوئم اور مصر کے صدر السیسی نے مشترکہ ملاقاتوں کے لیے عراق کا دورہ کیا۔ 1990 میں صدام حسین کی طرف سے کویت پر حملے کے بعد کسی مصری صدر کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔
مارچ میں پوپ فرانسس نے عراق کا تاریخی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے تباہ شدہ چرچوں میں دعا کی اور نجف میں شعیہ عالم آیت اللہ علی السیستانی سے ملاقات کی۔

عراقی وزیراعظم نے امریکہ کے دورے سے قبل واضح کیا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے جنگی مشن کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’عراق کی سرزمین پر غیرملکی لڑاکا فورسز کی ضرورت نہیں رہی۔‘
عراق میں گذشتہ برس کے آخر میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج کی تعداد تین ہزار 25 سو رہ گئی تھی۔
یہ اعلان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ افغانستان میں بھی 20 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے آخری مراحل میں ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2011 میں عراق سے فوج کو واپس بلا لیا تھا۔ تاہم داعش نے مغربی اور شمالی عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے 2014 میں عراقی فورسز کی تربیت اور مشاورت کے لیے فوجیوں کو عراق واپس بھیجا تھا۔