اپوزیشن جماعتوں نے جب مشترکہ اتحاد پی ڈی ایم تشکیل دیا تو اس دوران ضمنی انتخابات میں بعض حلقوں میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کے امیدواروں کو سپورٹ کیا اور نتیجہ اچھا خاصا ان کے حق میں بھی آیا مگر سینیٹ انتخابات اور اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا اور اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو کہ دونوں بڑی جماعتیںہیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آگئیں ،الزامات کی بوچھاڑ کی گئی، بیک ڈور رابطوں کے متعلق بھی ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے جس ووٹ چوری کے متعلق اتحاد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
اسی ووٹ کیلئے اتحاد کو مکمل طور پر کمزور کیا گیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے عوامی اجتماعات کے دوران جتنا مقتدر حلقوں کو ہدف تنقید بنایا پھر رابطے بھی ان کے ساتھ چل رہے تھے گویا عوام کی آنکھوں میںدھول جھونک رہے تھے ۔ اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ یہ جنگ ووٹ کو عزت دو نہیں بلکہ اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ تھی ۔اپوزیشن جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے یہ جنگ لڑرہی تھیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بار پھر گزشتہ روز چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ بننے کا اشارہ دیا۔گزشتہ روز کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر کام کریں تو پنجاب میں بزدار کو بھگا سکتے ہیں، وفاق میں عمران خان کو بھی ہٹا سکتے ہیں۔
اگر اپوزیشن کی دیگر جماعتیں حکومت کو نہیں ہٹا سکتیں تو میں زبردستی تو نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوری، پارلیمانی طریقے سے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، اپوزیشن کے دوستوں کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے، اپوزیشن کے دوستوں کو پیغام دوں گا کہ پارلیمانی طریقہ کار اپنایا جائے۔بلاول بھٹو زرداری کی یہ پہلی بار پیشکش اپوزیشن جماعتوں کو نہیں ہے اس سے قبل بھی وہ یہ باتیں کہہ چکے ہیں مگر پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ ن جو کہ اس وقت ایک بڑی جماعت ہے اس نے تحریری طور پر پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی سے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے وضاحت مانگی تھی اور اس کے بعد پیپلزپارٹی اور اے این پی نے اپنی راہیں پی ڈی ایم سے الگ کرتے ہوئے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلیں اور ساتھ ہی واضح کردیا کہ وہ کسی صورت وضاحت نہیں دینگے جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت اس معاملے پر بضد رہی جبکہ مولانافضل الرحمان کی پوری کوشش تھی کہ اتحاد کو برقرار رکھاجاسکے۔
مگر وہ اس میں ناکام ہوئے۔ جب شہباز شریف جیل سے باہر آئے تو انہوں نے بھی پیپلزپارٹی اور اے این پی کو دوبارہ پی ڈی میں شمولیت کے اشارہ دیئے مگر معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ بہرحال اپوزیشن جماعتوں کی راہیں اب مکمل طور پر جدا ہوچکی ہیں اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آگے چل کر پی ڈی ایم عام انتخابات میں ایک الائنس کے طور پر انتخابات نہیں لڑے گی ۔
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پنجاب اور وفاق میںحکومت کی تبدیلی کے حوالے سے اپوزیشن کو پیشکش کرنا محض بیان کی حد تک ہے اب پی ڈی ایم ماضی کی طرح ایک مضبوط اتحاد نہیںرہی تو پھر کس طرح سے پنجاب اور وفاق کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گی ۔اگر پیپلزپارٹی اتنی سنجیدہ ہوتی تو آزاد کشمیر انتخابات میں اپوزیشن کے ساتھ فارمولہ طے کرتی تب یہ بات سمجھ میں آتی کہ ایک بار پھر پی ڈی ایم صف بندی کرتے ہوئے ایک بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔لہذااپوزیشن جماعتوں کی اس طرح کے بیانات محض شہ سرخیوں میں جگہ پانے کے اور کچھ نہیں ۔