کوئٹہ: اسپیکر بلوچستان کی صوبے کو سندھ کی جانب سے کم پانی فراہم کرنے کے معاملے پر صوبائی حکومت کومشترکہ مفادات کونسل میں شکایت دراج کرنے کی ہدایات ،منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن میر جان محمد جمالی نے سندھ بلوچستان آبی تنازعہ سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے۔
کہا کہ سندھ حکومت ارسا معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کو کیر تھر کینال میں 1/3حصہ پانی دے رہی ہے جو کہ شالی، چاول اور خریف کی دیگر فصلات کی بوائی کے لئے ناکافی ہے اس عمل سے کیر تھر کینال سے آباد ہونے والے کاشتکاروں کا معاشی قتل اور گرین بیلٹ کو غیر آباد کیا جارہا ہے لہذا اس فوری اہمیت کے حامل مسئلے پر اسمبلی کی کاروائی روک کر عام بحث کی جائے۔
بعدازایں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے میر جان محمد جمالی نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن کو دریائے سندھ سے پانی فراہم کیا جاتاہے اس کا کنٹرول بھی سندھ کے پاس ہے پانی کے مسئلے پر سندھ اور پنجاب آپس میں الجھ پڑے مگر افسوس کا مقام ہے کہ رضا ربانی جیسے لوگ بھی بلوچستان کو بھول گئے بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی فراہم نہ کرنے کے معاملے کا نوٹس لیا جائے۔
اسپیکر اس حوالے سے رولنگ دیں تاکہ اس معاملے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی اورمشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے انہوںنے کہا کہ2016ء میں سی سی آئی کے اجلاس میں یہ طے پایا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ اور وزیراعلیٰ بلوچستان مل کر اس مسئلے کو حل کریں گے مگر اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا دوسری جانب حب ڈیم کراچی کو جو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
اس مد میں بھی سندھ حکومت ہماری اربوں روپے کی مقروض ہے انہوںنے تجویز دی کہ حب ڈیم سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند کردی جائے ۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں80فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی سے ہے شدید گرمی میں نصیر آباد ڈویژن کے لوگ پانی اور بجلی کے لئے دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پٹ فیڈر اور کیرتھر کینال سے بلوچستان کو فقط ایک تہائی پانی فراہم کیا جاراہ ہے جس سے وہاں کی زراعت تباہی سے دوچار ہوچکی ہے ایک ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے زمیندار اپنی جیب سے ابتداء میں ہی پچاس ہزار روپے خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ زمینداروں اور کاشتکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں اس مسئلے پر پہلے بھی اسمبلی میں بات ہوتی رہی ہے۔
مگر مسئلہ حل نہیں ہورہا حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھائے اور مسئلے کے حل کو یقینی بنائے ۔وزیراعلیٰ کے مشیر محمدخان لہڑی نے کہا کہ بلوچستان کے ذرعی شعبے کا 6لاکھ ایکڑ پٹ فیڈر اور کیرتھر کینال سے آباد ہوتاہے لوگ بیوپاریوں سے ادھار پر بیج خرید کر کاشت کرتے ہیں اس سال اربوں روپے کے بیج خراب ہوگئے ہیں اور زمینداروں کو مجبوراً اپنی زمین بیچ کر ادھار چکانا پڑے گا ۔
ہرسال ربیع اور خریف میں پہلے سندھ زیادہ پانی چھوڑتا ہے اور پھر اچانک پانی کو بند کردیا جاتا ہے انہوںنے کہا کہ اگر پندرہ دن بعد زمیندار کو دو دن پانی ملے گا تو وہ کیسے زمین آباد کرے گا ۔اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔ بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کو ارسا معاہدے کے تحت کم پانی مل رہا ہے۔
جو کینال صوبے میں بننے تھے وہ نہیں بن سکے تکنیکی طو رپر کام نہیں ہوا ۔ اس سال بھی اربوں روپے کے نقصان کا خدشہ ہے ارسا معاہدے پر نظر ثانی کی جائے ۔ سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے پانی کم ہے ہمیں ایک توانا آواز قرار داد اور کمیٹی کی ضروت ہے جو بلوچستان کا مسئلہ اٹھائے حکومت صرف اپوزیشن کو زیر کرنے اور کرکٹ کے میچ کرانے سے خوشحالی نہیں لاسکتی انہیں ایوان میں آکر سوچنا اور تکنیکی طو رپر غور کرنا ہوگا ۔
صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ پٹ فیڈر کیرتھر اور شاہی کینال پر ہر سال یہی مسئلہ ہوتا ہے سندھ حکومت کے ساتھ وزیراعلیٰ وزیرآبپاشی سمیت دیگر حکام نے رابطے کئے ہیں مگر ان کا رویہ غیر سنجیدہ ہے اور وہ اب بھی ہمیں ہمارا جائز حصہ نہیں دے رہے جب تک حکومت بلوچستان کے محکمہ آبپاشی کو ریگولیٹر تک رسائی نہیں دی جاتی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
سندھ کی جانب سے ان دنوں پانی کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے مگر اب اس کا فائدہ نہیں کیونکہ ہائبرڈ بیج خراب ہوچکے ہیں انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر کمیٹی بنائی جائے ہماری اپنی بھی خامیاں ہیں ہمیں اپنا نظام بھی دیکھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا تو ہمارے علاقے بنجر ہوجائیں گے پٹ فیڈر کینال پر صرف ایک ایکسیئن تعینات ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایکسیئن نہیں دیکھ سکتا ہمیں انتظامی امور بھی بہتر کرنے ہوں گے ۔بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن میں غریب کاشتکار متاثر ہورہے ہیں وزیراعلیٰ سی سی آئی کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھائیں انہوںنے استدعا کی کہ اس معاملے پر سپیکر کی سربراہی میں ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے بعدازاں سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے۔
کہا کہ بلوچستا ن کے پانی کا مسئلہ اہم ہے ہم جب سندھ سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں پانی کم مل رہا ہے اگر سندھ کو کم پانی مل رہا ہے تو وہ پہلے سے دربدر بلوچستان سے اس کا حصہ نہ کاٹے ۔ارکان اسمبلی نے اپنی تقاریر میں جامع اندا زمیں کاشتکارو کے مسئلے پر بات کی اور کیرتھر اور پٹ فیڈر کینال سے پانی کی کمی کے مسئلے کو ایوان میں اٹھایا خدشہ ہے۔
کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بلوچستان کا گرین بیلٹ تباہ ہوجائے گا صوبائی حکومت پانی کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف مشترکہ مفادات کونسل شکایت دراج کرائے تاکہ کاشتکاروںمیں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے ۔ انہوںنے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو مراسلہ ارسال کریں کہ اسمبلی سیشن کے پہلے روز اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔
اور باقی دنوں میں اگر وہ نہیں آسکتے تو متعلقہ سیکرٹریز اور افسران کی شرکت کو یقینی بنائیں ۔اجلاس میں وزیر خزانہ نے پی ڈی ایم اے بلوچستان کی تیاری اور رد عمل پر آڈیٹر جنرل پاکستان کا خصوصی مطالعہ آڈٹ سال2017-18،موسمیاتی تبدیلی ، ماحولیات و ڈیزاسٹر مینجمنٹ آرگنائزیشن بلوچستان کے حسابات سے متعلق آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2019-20ء ، پبلک سیکٹر انٹر پرائزز حکومت بلوچستان کے۔
حسابات سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ برائے سال2020-21ء اور این ایف سی ایوارڈ کے عملدرآمد پر دوسری ششماہی مانیٹرنگ ڈرافٹ رپورٹ جنوری تا جون2020ایوان کی میز پر رکھے جس کے بعد سپیکر نے اجلاس جمعہ6اگست تک ملتوی کرنے کی رولنگ دی ۔