خضدار: بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع خضدار کے صدر شفیق الرحمٰن ساسولی نے کہاہیکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے جاری کردہ مرکزی اعلامیہ کے مطابق 8 اگست سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کے پانچویں برسی نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جائے گا۔ بلوچستان کے شہید وکلاء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے۔
بلوچستان کے تمام اضلاع سمیت ضلع خضدار کے تمام تحصیلوں خضدار، باغبانہ، زیدی، زہری، کرخ، مولہ، نال، گریشہ، وڈھ، آڑینجی، اورناچ میں بی این پی کے زیراہتمام تعزیتی ریفرنسز منعقد کیئے جائینگے۔ جبکہ اس سلسلے میں پارٹی کے تحصیل زمہ داروں کو ھدایت کی گئی ہیکہ وہ اپنے تحصیلوں میں پروگرام منعقد کرکے شہید وکلاء کے قربانیوں اور جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کریں۔
بی این پی ضلع خضدار کے صدر شفیق الرحمٰن ساسولی نے کہاکہ بلوچستان کی بد قسمتی یہ ہیکہ جب کسی بھی مہینے کی کوئی بھی تاریخ جب اپنی آپ بیتی بیان کریگی تو وہ آپ بیتی مظلوم و محکوم بلوچستان پر بیتنے والے ظلم و بربریت سے خالی نہیں ہوگی۔ مظلوم بلوچستان کے کئی شیردل قبائلی شخصیات، ڈاکٹرز، انجینئرز، مدرسین اور طلباء اور صحافی شہید کئے گئے، ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہیں۔
ان میں سے کئیوں کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ آٹھ اگست 2016 بھی انہی کرب ناک واقعات میں سے ایک ہے۔شفیق الرحمان ساسولی نے کہاکہ میں وہ قیامت خیز دن نہیں بھول سکتا کہ آٹھ اگست 2016 کو کوئٹہ میں دہشتگردوں نے پہلے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ان کے گھر کے قریب ٹارگٹ کلنگ کی اور اس کے بعد جب ان کی لاش سول ہسپتال کوئٹہ پہنچائی گئی تو وکلاء کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچی۔
ہسپتال میں پہلے سے موجود دہشتگرد نے وکلاء کے ہجوم کے اندر خود کو دھماکے سے اڑایا جس کے نتیجے میں 56وکلاء اور 2 صحافیوں سمیت 75 سے زائد افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس دن اس دھرتی سے اس کے وکلاء کی کریم کو چھیناگیا۔ سینئروکلاء کی شہادت سے جہاں عدالتی امور میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا وہیں اس معاشرہ اور خاندانوں کے چشم و چراغ ہمیشہ کیلئے جداہوگئے۔
انہوں نے کہاکہ انصاف کے نام پر بھی ظلم یہ کہ باقی معاملات کی طرح آٹھ اگست کے سانحہ پر تحقیقاتی کمیشنز بنائی گئیں، انصاف کے منتظر خاندانوں کو تاریخ پہ تاریخ دیاگیا مگر تاحال بلوچستان مجازی خداوں کے انصاف سے محروم ہے۔۔زمانے میں زمینی منصفوں کے انصاف کی یہ حالت دیکھ کر بلوچستان کے عوام اب سوال نہیں بس روتے ہیں۔
نوروز خان و ان کے ساتھیوں کی شہادت پر، اسدجان سے لیکر آج تک اپنے کئی بیٹوں کی لاپتگی پر، اکبر خان و حبیب جالب سمیت اپنے ہزاروں ڈاکٹر، انجنیئر، ٹیچر، لیکچرار، پروفیسر، اسٹوڈنٹ، صحافی فرزندوں کی شہادت پر؟ سونا، تانبا، گیس، تیل اور سمندر و دیگر کئی ذخائر کی مالک ہوتے ہوئے اپنی غربت پر؟ اپنے بیٹیوں کو ان کے شوہر، فرزندوں، بھائیوں کے بازیابی کیلئے سسکتے بلکتے روتی ہوئی سڑکوں پہ دیکھنے پر۔
اسی طرح کے کئی اور واقعات سمیت بلوچستان کے عوام اپنے وکیل بیٹوں کیلئے رورہی ہیں، اللہ سے انصاف کی خواہش رکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر بلوچستان کے دعاء وبددعاء اور خواہشات کا جائزہ لیاجائے تو نہایت ہی جائز ہیں۔ بلوچستان کے عوام اللہ پاک سے اپنے لئے امن و سکوں چاہتی ہیں، اپنے وکیل بیٹوں سمیت سب کیلئے انصاف اور دیگر شہیدوں کیلئے اعزاز و بلند درجات کا طلبگار ہیں۔
اپنے لاپتہ بیٹوں کی بازیابی کیلئے دعا مانگتے ہیں۔، اپنے زندہ خاندان کیلئے دعاکرتے ہیں ہیکہ وہ اپنے وسائل سے مستفید ہوسکیں۔ اور بد دعادیتے ہیں کہ جو بلوچستان پہ، ہم پر ہمارے بچوں پہ بے گناہ ظلم ڈھاتے ہیں اللہ ان کو نیست و نابود کرے۔