تحریر: شہزاد سید گزشتہ دنوں بیجنگ میں کیمونسٹ پارٹی آف چائینہ CPCکی 100 سوویں سالگرہ کی پریڈ کے موقع پرچینی صدراور CPCکے سیکرٹری جنرل شی چن پنگ کے غیر روایتی خطاب نے چینی قوم اور دنیا کے محکوم و مظلوم اکثریتی اقوام جو آزادانہ منصفانہ معاشی ترقی کے طلبگارہیں انکے مخالفین کو واضح پیغام دیا کہ ہمارے خلاف سازشیں یا رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے سردیوارچین سے مارکر پاش پاش کر دیں گے ۔
بلاشبہ یہ خطاب عالمی استعماری طاقتوں کے استحصالی پہیے تلے دبے اور پسے ہوئے طبقات کے لئے بھر پورجدوجہد سے لبریز جلد فتح کی نوید ہے۔اس خطاب سے پاکستانی عوام کی جذبوں نے بھی انگڑائی لی ہے۔ عالمی ،پاکستانی اور چینی میڈیا نے شی چن پنگ کے تاریخی خطاب کو خاص اہمیت دی ۔یہ تقریر طویل کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔
ملک چین جہاں آج جہاں کھڑا ہے یہ ترقی اس کی ایماندارانہ پختہ عزم اور نظریے پر عمل پیرا ہونے والی عوامی امنگوں، جدید تقاضوں کو سمجھنے اور پرکھنے والی عظیم سیاسی قیادت کے مرہون منت ہے۔چائنا کی موجودہ ترقی کو سمجھنے کے لیے ان کی قیادت اورسیاسی جماعت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔امید ہے ان دونوں کی مختصرجھلک سے پاک چین دوستی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ CPC دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے نو کروڑ پچاس لاکھ سے زائد افراد رکن ہیں۔ چین کامیاب سفارتکاری ،مستحکم پالیسی ،محنتی قوم، ولولہ انگیزقیادت کی بدولت دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا حامل ملک بن چکا ہے۔بلاشبہ پاکستانی عوام برادرملک چین سے لازوال دوستی پرفخراوراسے اپنا دوسرا گھر تصورکرتے ہیں۔ یقینا اس مضبوط کودوستی قائم کرنے میں ہماری سیاسی سفارتی و عسکری قیادت کا بہت بڑا کردار ہے۔
67 سالہ شی چن پنگ 1953 میں بیجنگ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سی پی سی کے بانی اور نائب وزیراعظم رہ چکے تھے۔شی چن پنگ جب 15 برس کے ہوئے تو خاندان سمیت دور دیہات میں محنت مزدوری کر کے اپنا وقت گزارنے لگے۔ جوانی کے ایام میں بھوک، خانہ بدوشی ،کھاد ٹرالی چلانے، ریڑھی بانی، کھیتی باڑی کرنے نہروں کے بند بنانے،سو کلو گندم کے بورے اپنے کندھوں پر اٹھا کر پانچ کلو میٹر بلند پہاڑی پر لے جانے جیسے سخت حالات سے ان کوگزرنا پڑا۔ یوں وہ سخت جان لڑکے کے نام سے شہرت پا گئے۔ شی چن پنگ اوران کا چھوٹا بھائی ایام جوانی میں اپنی بڑی بہنوں کے پرانے کپڑے اور جوتے پہنا کر تے تھے-
وہ کبھی اسکول نہ گئے لیکن مطالعہ کے شوق کی وجہ سے مزدوری کے بعد رات کوکیروسین کے لیپ تلے موٹی موٹی کتابیں پڑھا کرتے تھے اسی وجہ سے وہ 1975میں چھنگ ھوا یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے اہل قرار پائے اور کیمیکل انجینئر نگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی۔اس عظیم کامیابی پر علاقے کے لوگوں نے ان کو لمبی قطار میں تین کلومیٹر تک پیدل رخصت کیا۔ انھوں نے پارٹی عہدیداروں کو لوگوں سے اپنے والدین کی مانند محبت ،شہری اور دیہاتی طرززندگی میں خلیج کم سے کم کرنے پر زور دیتے ہوے عملی اقدامات کروائے۔ یوں انھوں نے جلد ہی ملکی و عالمی سطح پر خاص مقام اور مقبولیت کی منازل طے کرلیں۔
شی خاندانی بچوں کے ساتھ سخت رویہ اور سادگی سے زندگی گزارنے کی روایت کے علمبردار ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پارٹی عہدیداران اگردوسروں کو نظم ونسق کا پابند بنانا چاہتے ہیں تووہ پہلے اپنے کنبے سے اس کا آغازکریں۔ شی پنگ کی والدہ نے تمام کنبہ کو شی چن پنگ کی ذمہ داریوں والے علاقوں میں کاروبار کرنے سے منع کیا ہوا ہے کیونکہ شی ان کواپنا نام استعمال کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے۔ 1986 میں شی چن پنگ نے باہمی محبت کی وجہ سے مشہور گلوکارہ پھنگ لی یوان سے شادی کرلی وہ چین میں صوتی قومی موسیقی میں ماسٹر کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔
وہ موسیقی کے سکولوں کی بانی ، کئی قومی اعزازات یافتہ اورشی چن پنگ سے محبت کرنے والی خاتون ثابت ہوئیں۔پھنگ لی کی نظرمیں شی چن پنگ ایک بہترین شوہراور باپ ہیں۔ان کی ایک بیٹی جسکا نام شی منگ زے یعنی ایماندارانہ زندگی جینے اورمعاشرے کے لئے مفید شخصیت بننے والی ہے اور یہ ان کے سادہ طرززندگی کی علامت ہے۔1975میں شی پنگ کو CPC میں شامل کر لیا گیا۔جب آپ پارٹی کے عہدیدار بنے تو ایک دن میں سات سو درخواست گزاروں سے ملتے اور یوں عہدیداروں کے روبروعام پارٹی اراکین سے ملنے کا نظام وضع کیا۔ وہ ایک دفعہ کوئلے کی کان کے مزدوروں سے ملنے ایک ہزار میٹر تک زمین کی تہہ میں گئے۔ کان کنوں کے حالات کا مزید جائزہ لینے کے لیے پندرہ سو میٹر تنگ اور پیچیدہ راستہ پیدل طے کیا۔ شی چن پنگ میڈیا کے ذریعے عوامی روابط کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ سینکڑوں تحریریں لکھنے کی وجہ سے ادبی شخصیت کے طور پربھی بیحد مقبول ہیں۔
وہ ہر نئے سال کے موقع پر اپنے اساتذہ کو مبارکباد باقاعدگی سے بھیجتے ہیں۔ کرپشن پران کا موقف اور ردعمل ہمیشہ انتہائی سخت رہا ہے۔ ایک دفعہ چین کے علاقہ ینگ تہ کے عہدیداروں نے غیر قانونی رہائشی تعمیرات کیں اس کی تحقیقات کے دوران شی نے واضح کہا کہ ہم چند سوعہدیداروں کو ناراض یا لاکھوں لوگوں کو ناکام کردیں گے پھر فیصلہ عوام کے حق میں کرتے ہوئے کئی عہدیداران کو سزائیں دیں۔ شی چن پنگ اپنی صلاحیتوں کی بدولت چینی قوم کو سلامتی اور کشادہ روی ،معاشی زندگی میں تازگی اور ترقی کے خواب کی تکمیل کے لیے پرعزم قیادت بن کر سامنے آئے۔
شی چن پنگ نے جس عزم کے ساتھ قیادت سنبھالی اسی طرح وہ متحرک بھی ثابت ہوئے۔ دراصل وہ عالمی امن و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ وہ عوام پارٹی اورقوم کا نظریہ لے کر آگے بڑھے۔انہوں نے معاشی ترقی کے لیے تمام ملکی اختیارات کا مالک چینی قوم،قانون کی حکمرانی، دستوری ریاستی قوت کے استعمال اور تمدنی ترقی کو انسانی ہنرکی ترقی قرار دیا۔ چینی قومی ترانے کے ان الفاظ” ہم نئی عظیم دیوارچین کی تعمیراپنے خون اور گوشت سے کریں گے”کو عملی جامہ پہناتے ہوئے معاشی ترقی کے لئے ہم آہنگ معاشرہ کی تعمیر،اچھی زندگی کیلئے کوششوں کی حمایت اورملکی ذرائع کی حفاظت، ماحولیاتی تحفظ اور ترقی کیلئے ایک دیرپا طرز کی قومی پالیسی پر زوردیا۔ شی چن پنگ پارٹی عہدیدارکی حیثیت سے ملک کے مختلف علاقوں اورکچھ عرصہ چینی فوج میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اس لیے وہ CPC کو مضبوط بنانے کی اہمیت و افادیت سے بخوبی آگاہ تھے ۔
وہ پارٹی کو سخت معیارپرمنظم کرنے کارکنوں کو اپنے رویوں کی نگرانی اور پارٹی ڈسپلن پرعمل کرنے کی خاص تاکید کرتے۔”کیڑے بوسیدہ جگہوں پرہی پل بڑھ سکتے ہیں” یہ جملے شی چن پنگ نے پارٹیکے سیاسی مطالعاتی حلقہ کے اجلاس سے بات چیت کرتے ہوئے ادا کیے تھے۔ انہوں نے واضح کہا کہ حقائق سے ثابت ہوچکا ہے کہ ملک میں بدعنوانی پھیل رہی ہے اگراسکا خاتمہ نہ کیا گیا تو ہماری پارٹی اور ملک دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ ترقی کی جدید راہیں کشادہ روی سے اختیار نہیں کر رہے دراصل وہ بوسیدہ نظام کو ہی اپنی منزل قرار دے کر اس کا حصہ بن رہے ہیں یہ “ان کیڑوں کی مانند ہیں جوبوسیدہ جگہوں پر ہی پل بڑھ سکتے ہیں” لہذا پارٹی و حکومتی نظام اور پالیسیوں میں جدید زمانے کے مطابق تبدیلیاں لانا اورکسی بھی سطح پر پارٹی فیصلہ سازی کے عمل میں تحقیق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔پارٹی عہدیداروں کو نچلی سطح پرجانا اوردیکھنا چاہیے کہ لوگوں کے اہم مسائل کیا ہیں وہ کیا سوچتے اور چاہتے ہیں۔
انہوں نے پارٹی عہدیداروں کولوگوں سے اپنے والدین کی مانند محبت کرنے شہری اور دیہاتی طرززندگی میں خلیج کم سے کم کرنے پرزوردیتے ہوے عملی اقدامات کروائے۔ یوں وہ جلد ہی ملکی وعالمی سطح پرخاص مقام اورمقبولیت کی منازل طے کرگیے۔انتہائی مدبرانہ اورولولہ انگیز صلاحیتوں کے مالک شی پنگ نے تین سال سی پی سی کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے جنرل آفس میں خدمات انجام دیں۔جس سے ان کے دل میں مسلح افواج کے لئے گہری محبت پیدا ہوئی۔انہوں نے پارٹی وحکومتی ذمہ داران کے ہمراہ فوجی علاقوں کے سربراہ کے طور پربھی کام کیا ۔یوں وہ فوج کے نچلے درجے کے معاملات کو سمجھنے لگے۔ تائیوان، مکائو اورہانگ کانگ کے معاملات و مسائل سے بخوبی آگاہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے مسائل کو حل کرتے رہے اور اس بات پر زور دیتے” اگر بھائی ایک جیسی ذہنیت رکھتے ہوں تو ان کی قوت سخت ترین دھات کو بھی کاٹ سکتی ہے۔
جرمنی میں کتاب میلے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف تمدنوں کے درمیان تبادلوں سے لوگوں کو چین کے کنفیوسش جرمنی کے گوئٹے اور برطانیہ کے شیکسپیئر کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ بین الاقوامی تمدنی تبادلوں کے فروغ دینے سے انسانی ترقی اور پرامن ارتقاء میں اہم حرکت پیدا ہوئی ہے۔ چائینہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی دنیا کو جواب دیتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی بہترین نہیں ہوتا سب بہتر ہی ہوتے ہیں یعنی ہر ملک کے معروضی حالات اور راہیں مختلف ہیں۔ جوتا پورا ہے یا نہیں یہ پہننے والا ہی جانتا ہے۔ وہ ریاستوں کے درمیان مضبوط تعلقات کی کنجی لوگوں کے درمیان دوستی اورریاستی دوستی کا درجہ آپس کے تعلقات پر منحصر قرار دیتے ہیں۔ وہ چینی سفارت کاروں سے زیادہ سے زیادہ سفر کرنے اور بے تکلف دوست بنانے کے طلبگار ہیں۔
یہی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ، دوسری بڑی معیشت اورعالمی طاقت بننے کا رازہے۔ اس لیے عالمی استحصالی قوتوں نے چین کو اپنا دشمن تصور کرلیا ہے ۔وہ بڑی آبادی پر مشتمل ملک کو خود کفیل ہوتا دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔ کہ اگر یہی طرز عمل دوسرے ممالک نے بھی اختیار کر لیا تو ان کاجبری تسلط دنیا میں کسی طور قائم نہ رہ سکے گا۔ اسی وجہ سے چین کے خلاف منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔چین کے خلاف عالمی معاشی سیاسی و عسکری دباؤ کے بعد انسان کش کرونا وائرس جیسا ہتھیار استعمال کر کے پوری دنیا کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا گیا تھا لیکن چینی قیادت اور عوام نے ماضی کی طرح اس ہتھیار کو بھی مفلوج کر دیا اور دنیا میں حیران کن لاک ڈاؤن اور ویکسینیشن ایجاد کرکے انسانیت کو عالمگیر جبر و استبداد کے شکنجے سے محفوظ بنا دیا۔
چین نے لاک ڈائون کے دوران دیگر شعبہ جات کے علاوہ زرعی پیداوار میں 13.54فیصد سالانہ اضافہ کیا۔ پارٹی کے سو سالہ یوم تاسیس پر جذبوں اور سوچوں سے بھرپور شی چن پنگ کے حیران کن خطاب نے عالمی دنیا کو واضح کر دیا کہ چین کی ترقی کے خلاف کوئی سازش یا رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی ۔ دنیا پر مسلط آقائوں کے منفی رویوں اور پالیسیوں کے ردعمل میں ایک محنتی مخلص اور دنیا میں باوقار طریقے سے زندہ رہنے کی خواہش مند چینی قیادت کے خطاب سے ہمارے پاکستانیوں کے جذبہ جدوجہد کو بے حد تقویت ملی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ورکروں کی بھرپور تربیت کریں۔ کیونکہ پاکستان دشمن قوتیں بھی کئی سالوں سے اسی طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پاک چین دوستی اورسی پیک پاکستان دشمنوں کوایک آنکھ نہیں بھاتا۔
پاکستانی عسکری قیادت بھی اس حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ جوکوئی سی پیک کی طرف بری نگاہ سے دیکھے گا ہم اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ یقینا سی پیک پاکستان ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ترقی کے کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ وہ عالمی حالات کے تناظر میں عوام دوستی،قانون کی بالادستی، ایماندارانہ طرز سیاست کی راہ اختیار کریں۔ اندھی معاشی ترقی کا راستہ چھوڑ کر تحقیق ،بالغ نظری پاک فوج سمیت تمام اداروں اور عوام کوساتھ ملا کر قومی جذبہ بڑھانے پر توجہ مرکوزکرے تب جا کر پاک چین دوستی حقیقی معنوں میں ہمالیہ سے اونچی اور لوہے کی طرح مضبوط بنے گی۔