افغانستان میں حالیہ شورش کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑھنے کے قوی امکانات ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے پاکستان کی ہر بار یہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکے تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام یقینی ہوسکے مگر بدقسمتی سے افغان حکومت نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ تعلقات کے متعلق نہیں سوچا بلکہ افغانستان کی جانب سے مسلسل پاکستان پر الزامات ہی لگائے گئے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نائن الیون کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھادیا اور افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کروائے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سانحہ 8اگست2016ء کو کس طرح سے بلوچستان کے عوام بھلا سکتی ہے جب دہشت گردوں نے وکلاء برادری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور بڑی تعداد میں ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس میں وکلاء اور صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد شہید ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد دہشت گردی کے واقعات پاکستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہوچکے ہیں جس کے باعث پاکستان نے جانی ومالی نقصانات بڑے پیمانے پر اٹھائے ہیں۔
افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے خطہ آج بھی عدم استحکام کا شکار ہے اگر افغانستان میں امن قائم ہوگا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا مگر بدقسمتی سے افغان حکومت کے رویہ میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس کی واضح مثال سلامتی کونسل کے اجلاس میں ہونے والے افغانستان کی جانب سے من گھڑت الزامات ہیں جو پاکستان پر لگائے گئے جس کا جواب دفتر خارجہ نے کھل کر دیا ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے کہا کہ افغانستان کے نمائندے نے عالمی برادری کو گمراہ کیا، دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کو سلامتی کونسل میں موقف پیش نہیں کرنے دیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل میں افغانستان پر ہونے والے مباحثے کا بغور جائزہ لیا ہے۔سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان مخالف بیانیے کے لیے استعمال کیا گیا،افغانستان کے نمائندے نے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے، دکھ کی بات ہے کہ سلامتی کونسل اجلاس میں پاکستان کومؤقف دینے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان ان الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔پاکستان کا موقف سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔پاکستان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ افغانستان کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں سیاسی حل ہی پائیدار امن اور سلامتی کا واحد راستہ ہے۔دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تعمیری کوششوں سے دوحہ امن عمل میں اہم سنگ میل حاصل کیا گیا، افغانستان میں بڑھتے تشدد اور بین الافغان مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت نہ ہونے پر سنجیدہ ہیں اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس پر گہری تشویش ہے،تمام فریقین انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قانون کا مکمل احترام یقینی بنائیں۔
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ نے کہا کہ ایک بار پھر افغانستان کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ الزام تراشی سے باز رہے،امن،سلامتی اور ترقی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے افغانستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے،افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن اور یکجہتی کے موثر استعمال کی ضرورت کا اعادہ کرتے ہیں۔دفتر خارجہ کی جانب سے ایک بار پھر افغانستان کی حکومت کو بات چیت کی پیشکش کی گئی ہے تاکہ افغانستان میں مشترکہ کاوشوں کے ذریعے استحکام اور دیرپا امن قائم کیاجاسکے۔بدگمانی اور الزامات سے مسائل حل نہیں ہوسکتے اس لئے افغان حکومت موجودہ صورتحال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے امن اور خوشحالی کے متعلق سوچے تاکہ خطے میں ایک نیا بحران پیدا نہ ہوسکے۔