|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2021

امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلاء تقریباً مکمل کر لیا ہے تاہم وہ اب بھی طالبان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں گزشتہ چند دنوں کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے اور انھوں نے پانچ دنوں میں چھ اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔گزشتہ اتوار طالبان نے قندوز کے علاوہ شمالی شہر سرِ پْل اور تالقان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ قندوز وسطی ایشیا کا دروازہ کہلاتا ہے اور اسی کی اسٹریٹیجک اور معاشی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔ان تینوں شہروں پر کنٹرول کے بعد جمعہ سے لے کر اب تک مجموعی طور پر چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں سمنگان، قندوز، سرِ پْل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔

طالبان نے افغانستان کے صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ سمنگان کے ڈپٹی گورنر صفت اللہ سمنگانی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایاہے کہ صوبے کا دارالحکومت ایبک طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔افغانستان میں کئی مقامات پر حکومتی فورسز اور طالبان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔افغانستان میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان تین دن سے جاری شدید لڑائی میں کم از کم 27 بچے بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق یہ 27 اموات افغانستان کے تین صوبوں قندھار، خوست اور پکتیا میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان علاقوں میں گزشتہ تین دن کے دوران تقریباً 136 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔

جنوبی شہر لشکرگاہ اور ہلمند میں اس وقت بھی شدید لڑائی جاری ہے۔دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن کا افغانستان کی موجودہ صورتحال پر کہنا ہے کہ افغانستان کا دفاع کرنا افغان افواج کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہمارا فوجی مشن31 اگست کو ختم ہوجائے گا۔جوبائیڈن نے کہا کہ افغانستان کے عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ میں امریکیوں کی ایک اور نسل کو 20 سالہ جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتا۔پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری صورتحال سے امریکا کو بہت تشویش لاحق ہے۔ افغان فوج کے پاس طالبان سے جنگ کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔جان کربی نے کہا یہ ان کی اپنی فوج ہے۔ یہ ان کے اپنے صوبائی دارالحکومت ہیں، یہ ان کے اپنے لوگ ہیں جن کا دفاع کرنا ہے اور یہ سب ان کی قیادت پر آ جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔

امریکی حکام کاحالیہ بیان انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ گزشتہ 20سال سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جنگ چھیڑ رکھی تھی سرد جنگ کے اختتام کے بعد افغانستان میں امن کا راستہ ہموار ہونے کے قوی امکانات موجود تھے مگر عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی خاطر افغانستان کو جنگ میں دھکیل دیا اور یہ خونی کھیل اب مزید شدت اختیار کرتاجارہا ہے جب امریکہ اور اس کے اتحادی واپس جارہے ہیں ۔بدقسمتی سے جو کردار امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو انخلاء سے قبل ادا کرنا چاہئے تھا اس میں انہوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی، اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات اور امن عمل کو آگے بڑھاتے تو شاید آج یہ صورتحال نہ ہوتی جو اس وقت افغانستان میں ہے۔ اس جنگ کے خطرناک نتائج خطے پر بھی پڑھنے کے قوی امکانات ہیں ۔جس عالمی امن کا دعویٰ عالمی قوتیں کرتی آئی ہیں اس کے برعکس ان کا کردار منفی دکھائی دے رہا ہے۔ افغانستان میں اب امن کی کی مکمل ذمہ داری افغانستان کے اسٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کو مزید خانہ جنگی سے بچانے کیلئے بات چیت کے راستے کو اپنائیں وگرنہ افغانستان میں خانہ جنگی کے ماضی سے بھی زیادہ بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔