|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2015

اسلام آباد :  چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش تاحال جاری ہیں جمہوریت کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا ۔ 1973 کا متفقہ آئین کی وفاق پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے ۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو خود مختاری دی گئی لیکن صوبے اس حقیقت کو قبول بھی کرے ۔ نوجوانوں کو سول بیوروکریسی جمہوریت کی منفی شکل دیکھ رہی ہے اور اپنی مرضی کی سمت میں موڑنا چاہتی ہے ۔ ذاتی مفادات کے لئے بیوروکریسی کا ساتھ دینے والے سیاستدان پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئین کی بالادستی کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ 10 اپریل پاکستان کی تاریخ کا عظیم الشان دن ہے نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا کہ 10 اپریل کے تاریخی دن کے پیچھے کن کن مشکلات کا سامنا اٹھانا پڑا اور آج بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ 1973 کے آئین کو خطرہ ہے ۔ اس آئین کو بنانے والوں کی حکمرانی کے لئے کھڑے ہوئے اور تقاضا کیا کہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں صوبائی حکومتوں کے پاس مکمل اختیارات ہوں ۔ انسانی حقوق کی ترجمانی ہو ، پارلیمنٹ بااختیار ہو لیکن نوجوانوں میں غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں قانون توڑنے والے اور بدمعاش بیٹھے ہیں یہ سب پراپیگنڈہ صرف سول بیوروکریسی کی چال ہے کیونکہ وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ اختیارت صرف بیوروکریسی کے پاس رہنے چاہئے تاکہ اپنی مرضی کے مطابق پاکستان کی سمت موڑی جا سکے لیکن اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی قصور ہے کہ ذاتی مفادات کے لئے بیوروکریسی کا ساتھ دیا اور سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کی ریت ڈال کر بیوروکریسی کی سرپرستی میں حکومت کرنا تھا انہوں نے کہا کہ 1956کا آئین نہیں مانتا کیونکہ یہ قانون ایک آمر کا دیا ہوا تھا ۔ 1973 کے آئین کو بناتے وقت ذوالفقار علی بھٹو اور سیاستدان جانتے تھے کہ پہلے آئین کی طرح اس آئین کو بھی سول و ملٹری بیوروکریسی ختم کرنے کی کوشش کرے گی ۔ لیکن تمام ترک کوششوں کے باوجود 1973 کے آئین میں ترمیم کی گئی اور ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے اپنے مفاد میں ترامیم کی ۔جسے پارلیمنٹ نے دوبارہ اصل شکل میں لایاگیا ہے ۔ آج کا آئین میں موجود صوبائی خود مختاری کی باتیں کریں یہ بھارت کے ایجنٹ ہیں صوبائی خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے وفاق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ نوجوانوں کو علم ہونا چاہئے کہ جب تک زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ پاکستان مختلف مذاہب پر مبنی ملک ہے اس کو تسلیم کرنا ہو گا لیکن پاکستان کی بیوروکریسی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ ثقافتی طرز زندگی کا آغاز صوبوں سے ہوتا ہے وہ وفاق کی شکل اختیار کرتا ہے میں عربی کلچر کو پاکستانہ کلچر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ موجودہ نظام میں کچھ سقم ہیں اس آئین میں گنجائش موجود ہے کہ غلطیوں کو درست کیا جا سکتا ہے بہتری کسی جادوگری سے نہیں آتی بہتری جدوجہد سے آتی ہے ۔ جمہوری سسٹم چلے گا تو بہتری آئے گی آج احتساب بیورو کے ذریعے سسٹم کی بہتری سے افراد زیرو نہیں ہیرو بنیں گے ۔میں وارننگ دیتا ہوں کہ جو لوگ جمہوری سسٹم کو ڈیل ریل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ اصل وفاق کو توڑنے والے ہوں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومتوں کو اپنے اختیارات کا علم نہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جائیں گے ۔ میں بلوچستان کی صورت حال ایک آتش فشاں ہیں لیکن بلوچ ۔۔۔۔کو سلام پیش کرتا ہوں کہ یہ انہوں نے قانون کی حکمرانی کے لئے امنے ہیں اگر اب بلوچوستان کے بلوچوں سے بات نہ کی گئی تو وہ مسلح گروپ حق بجانب ہوں گے کہ اپنے حقوق کے لئے لڑیں گے لیکن ہمیں اس بات پر متفق ہونا ہو گا کہ قانون کی حکمرانی ہی سے بالادستی قائم ہو گی تقریب سے سینیٹر مظفر شاہ ، شبیر ورک اور غفور حیدری نے بھی خطاب کیا ۔