|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2021

قلات ایک زرخیز۔مردم خیز۔ سرزمین ہے۔ جہاں پراعلی پایہ کے شخصیات نے جنم لیا اور بین الاقوامی سطح پر نام کمایا۔ یہاں بزرگ ولی بھی گزرے یہاں پر ہزاروں ملک وقوم کے لییجان قربان کرنے والیپیر مرید مدفون ہیں قلات کے بغیر بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ مکمل نہیں قلات کے لوگ زندہ دلی اور مزاح کے حوالے سے بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ھیں مجلسی لوگ ہیں براھوی ادب کے حوالے سیبھی ابتداء دور قلات کیارد گرد گھومتی ہے۔اقتباس از مرواری تالڑ۔میں انور نسیم کااظہار خیال صف 10۔جو انور نسیم اور اللہ بخش لہڑی کے ایک براھوی افسانے کے نام سے کتاب چھپی ہے۔ اس سے عنوان کا آغاز کر رھاھوں۔ کہ قلات کے صحافت کاایک اور ستون بھی گر گیا کچھ عرصہ قبل محمود احمد آفریدی ھم سے بچھڑ گئے وہ غم تازہ تھا کہ انور نسیم نیداغ مفارقت دے گیا انور نسیم مینگل کا نام محمد انور ولد محمد یوسف قوم زگر مینگل سے تھا بلوچستان کے ضلع خضدار کے گورنمنٹ کالونی میں محمد یوسف کے ہاں پیدا ھوے دینی تعلیم اور عصری تعلیم خضدار میں کچھ عرصہ پڑھا بعد میں جب والد محترم کا پوسٹنگ قلا ت ھوا تو قلات میں محلہ غریب آباد میں رھائش پزیر ھوے تو قاعدہ ملا اعظم اخند سے پڑھے اور مدرسہ تجوید القرآن بازار قلات میں مولانا نور حبیب سے قرآن مجید پڑھا اورمدرسہ انوارالتوحید رئیس توک میں فارسی زبان سیکھا مولانا حکیم شاہ محمد سے کریما پڑھا حافظ نور محمد سے ایک پارہ پڑھا جب میں راقم الحروف نے حفظ شروع کیاتھا تو بتانے لگے کہ میں نے یہ پارہ ایک ہفتہ میں یاد کیا ابتدامیں والد صاحب کی کتابیں اور رسالے اپنے مطالعہ میں رکھتے تھے۔

جن میں حکایت سب رنگ توء خضدار ودیگر رسالے تھے جب تک صحافت کیمیدان میں قدم نہ رکھاتھا تو اس وقت والد صاحب کے لیے روزنامہ جنگ کوئٹہ آتا تھاتو وہ خود بھی پڑھتے ہفت روزہ اخبار جہاں کو شوق سے پڑھتیوالد محترم نے جب علمی شغف کو دیکھا تو میز ٹیبل وکرسی کا اھتمام کیاتاکہ یہ ہونہار فرزنداپنی تعلیم اور مطالعہ دلجمی سے کرسکیریڈیو بی بی سی لندن میں شفعی نقی جامعی ماہ پارہ صفدر اور بات سے بات وسعت اللہ خان کو سنتیریڈیو خضدار کے دفتر جاکر مختلف شعراء کے پروگراموں کے لئے دوست واحباب کے بچوں کے فرمائش فرمائش دیتے اور یہ اپنے نام سن کر بہت خوش ھوتے کرکٹ میچوں میں خاصی دلچسپی لیتے چای ٹیسٹ میچ ھو یا ونڈے اور کہاکرتے کہ کرکٹ کا خوبصورت ستارہ برائن لارا ڈسمنڈھینز رچی رچڑسن عبدالقادر شاھین کلب سدوبھاء گواسکر رمیز راجہ سلیم ملک سعید انور عاقب جایدجب میدان میں ھوتیتو کھیل کا مزھ دوبالا ھوتا خود بیٹنگ اور بوائلنگ بھی کرتے قلات میں کرکٹ کھلینے کارجحان کمتھا تو انور نسیم نے پہلے پہل کی کھبی کھبار ھاکی اور اسکوائش بھی کھیلتے ہاکی میں جرمنی کے کھلاڑی فشر کے کھیل کو پسند کرتے اور اسکوائش میں جہانگیر خان کو فٹبال میں پیلے اور ڈیگو میرا ڈونا کرکٹ کے میچو ں میں جاکر کمنٹری کرتے اور ایک ٹیم قیقان کے نام سے فٹبال اور کرکٹ رجسٹرڈ بھی کروایاتھا مقامی کھیل کھینچہ تاڑی بیڈی گلی ڈنڈا بچپن میں کھیلتیاسکول کے دوران طلباء تنظیم بی ایس او کے مختلف عہدوں پر فائز رہ کر اپنے خدمات بخوبی سر انجام دیتے رھے داود ماڈل ھاء سکول میں نوب نوروز خان ھاسٹل میں شعور اور علمی آگاہی کے پروگرام رکہتے اورطلبا کے حق حقوق کے لیے جدوجہد کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے۔

بی ایس او کارسالہ پجار بھی انکے مطالعہ میں ھوتا انہی دوران میں پابند سلاسل بھی رھے پی ٹی اور اسکاوٹ اور تقریری میں پاکستان کیصوبوں میں نام کمایا اردو کی شاعری بانگ درا بال جبریل اور شکیل بدایونی سحر لدھیانوی دلی کی سیاستدانوں میں نواب زادہ نصراللہ خاں نواب اکبر خان بگٹی نواب خیر بخش مری شیروف مری باباے بلوچستسن میر غوث بخش بزنجو سردار عطاء اللہ خان مینگل سردار اختر جان مینگل ولی خاں درویش وزیراعلی مولانا مفتی محمود مذھبی علما میں میں مفتی زین العابدین مولانا محمد عمر پالنپوری مولانامحمد احمد بہاولپوری مفتی محمد تقی عثمانی مولانایوسف لدھیانوی کالم نگار حامد میر انور ساجدی جاوید چوھدری کو پڈد کرتیدلی کی برادریاں داستان ایمان فروشوں کی بلوچی رسالہ لبزانک بلوچی دنیا براھوی میں شیخ القران مولانا اختر مینگل کاتفسیر براھوی فضائل اعمال قاضی عبدالصمد سربازی مولانا عبدالغفار حلیمی حافظ نزراحمد مولانا عبدالخالق ابابکی کاقاعدہ باب القرآن بوستان براھوی مولانا محمد اسماعیل زگر مینگل کاکتاب یوسف زلیخہ جنگ نامہ محمد حنیفہ مولانا عبدالمجید چوتوء ملک داد قلاتی مولانا نبو جوہر براھوی اور بلوچی کے بے شمار رسالے اورکتابیں بکھری ھوتی تھی جب ان کو اس طرح دیکھا تو دل میں ایک احساس پیدا ھوا کہ ایک لائبریری کی بنیاد ڈالی جاے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں کتابیں پہنچ گئے۔

سبی کا اجتماع ھو یا رائیوینڈ یا اردو بازار کراچی ھو یالاہور میزان چوک کا بکسٹال ھو یا پرنس رو ڈ آجوء بکسٹال ھو یانیشنل بک فاونڈیش غرض کتابو ں کے میلوں کے لیے اڈلام آباد تک سفر کتے نظر آیاب مجھے یہ بات ضرور کرنا پڑھ رھاھے کہ مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی کتاب ممبر ومحراب کو2008میں جب مطالعہ کررھاتھاتو حضرت نے فرمایا تھا کہ مجھے بھی دنیا میں تین چیزیں پسن ھیں ایک یہ کہ میں ھو جاوں اور میرے آس پاس کتابیں ھی کتابیں ھو۔بس دوستو میرے انور کا بھی یہی قصور تھا جو تازیست قائم ودائم رھا وفات سے ایک دن پہلے نرالے لوگ تالیف کردہ جیون خان پوسٹ آفس کی طرف سے آچکاتھا جو میں نے اسے دکھانہ سکا لفظ نسیم کا جہاں تک تعلق ھے میرے خیال کے مطابقوہ نسیم حجازی کے کتابوں کا مطالعہ کثرت سے کرتے جس کی وجہ اپنے لیے نسیم کاچناو کیا وگر بے شمار مصنفین کے تخلص آپ کو ملیں گے نسیم مینگل نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکہاتو ماھنامہ گندار محمد علی قمبرانی کیاس کے ایڈیٹر تھے تو اس میں باقاعدگی مضامین چھپتے رھیں۔ں ہ ابتدا عشق ھے آگے دیکھیے ھوتاھے کیا۔جب روزنامہ مشرق کوئٹہ سے منسلک ھوتے تو بڑی محنت سے بیانات بھیجتے رھتے کچھ وقتوں کے بعدمھربانوں نے اپنے جار بچھانے شروع کردیے پھولوں کے سیج کے بجاے کانٹے بچھاتے گئے مگر یہ درویش صفت انسان نے اپنی منزل کی کوج میں لگے رھے۔کہ تند باد ملف سے نہ گھبرا اے عقاب۔یہ تو چلتی ھے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔آخر وہ وقت بھی آیا کہ مشرق والوں نے منہ پھیر لیے وش ٹی وی چینل بھی چھین لیا گیا مہربانوں کی مہربانی بڑھتی گئی۔یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی دھمکی آمیز خطوط کے ذریعے ڈراھایا اور دھمکایا گیا کہ یہ صحافت کو چھوڑ کر کہی اور جاکر بسے محمود آفریدی اسی راہ کے سپاہی بنتے ھوے دنیاسے رخصت ھویکچھ کو بیمایوں نے مفلوج کردیا کچھ علاقے کو چھوڑ ھجرت کرنے پر مجبور ھوگئے کچھ نے حالات کی نزاکت کوسمجھ کر صحافت سے دست وگریبا ں گراسمھجہ کر چھوڑا دیے۔

ھواوں کے رخ پہ چلو یہ میرا مزاج نہیں سمتگروں سے ڈروں یہ میرامزاج نہی کے تحت سفر کو جاری رکھتے ھواوں کے نرم جھونوں نے طوفان کا رخ اختیار کیا نئیبھولے بھالے لکھاری میدان میں کھود پڑے بقول انور نسیم کے پانچ پاس والوں کے لیے ہمتیں منت وزاری کیا گیا کہ ان کو میراحمد یارخان پریس کلب میں شامل کیا جاے مگر میں نے ان کو جواب دیا جو صحافت کے ابجد سے ناواقف ھو ان کو اپنے ساتھ ملانا یہ صحافت اور قلم کی توھین ھوگی ھمارے خلاف بازار اور گلی کوچوں میں پروپگنڈہ کیا گیا۔بس مدعی لاکھ برا چاے کچھ نہیں ھوتا۔وھی ھوتا ھے جو منظور خداھوتاھے جب میں راقم الحروف نے اپنے انگلیوں میں قلم لینے کی کوشش کی تو بخدا الفسظ موتیوں کی لڑی میں آتے گئے اوا میں پروتاگیا یہ مختصر سا کالم بن گیا ارادہ باندھ دیتاتھا ارادہ تھوڑ دیتاتھا کہ کھبی ایسا نہ ھوجاے کھبی ویسا نہ ھوجایراقم الحروف 1996تا2012تک مختلف مدارس میں زیت تعلیم رھا جس کی وجہ صحبت میں دوری رھی بعد ازاں ایک مسجد میں خطیب وامامت درس تدریس کے شعبے سے وابستہ رھا تو صرف بعد نماز فجر یا عصر کے بعد مختصر ملاقات ھوتی وھ ملاقات بھی سیاست کی نظر ھوتی پروفیسر انور نسیم کی وفات سے سیاسی سماجی صحافتی تعلیمی اداروں کا ایک باب بند ہوگیا