|

وقتِ اشاعت :   August 13 – 2021

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی نے بچوں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات قانون سازی و زینب الرٹ بل کی طرح بلوچستان میں بھی قانون کے نفاذ، سانحہ آٹھ اگست کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرانے ،کوئٹہ سے ملک کے دیگر شہروں کے درمیان چلنے والی ریل گاڑیوں کو فوری طور پر بحال و سبی تا ہرنائی ٹرین سروس شروع کرنے متعلق تین قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے۔

اپوزیشن ارکان کے بلوچستان میں بجلی کے نظام اور سپلائی میں خرابی و ناقص انتظام ،447 ایس ایس ٹی اساتذہ کی عدم تعیناتیوں ،مقامی اخبارات کو اشتہارات کے اجرا اور طریقہ کار سے متعلق توجہ دلاو نوٹسزنمٹا دیئے ۔ جمعرات کے روز ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی رکن شکیلہ نویددہوار نے قرار داد پیش کرتے ہوئے۔

کہا کہ بلوچستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے گیارہ اگست کو کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں معصوم بچی مریم کے ساتھ جنسی دہشت گردی کا مذمو م فعل ہوا ہے ۔سال 2020ء کے دوران صوبے میں جنسی دہشت گردی کے 53واقعات رجسٹرڈ ہوئے اسی طرح رواں سال بھی اب تک 38واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

رواں ماہ کے دوران بھی بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے دو واقعات پیش آئے چونکہ 2020ء میں زینب الرٹ ایپ جو قومی اسمبلی میں پاس ہوچکا ہے بلوچستان میں بھی اسی قسم کے قانون کی اشد ضرورت ہے لہٰذایہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ ہمارے بچوں کے تحفظ کے لئے موثر قانون سازی کو یقینی بنائے اور موجودہ قانون کے تحت جنسی دہشت گردی کے مرتکب مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات اور قانون سازی کی ضرورت ہے زینب الرٹ بل کی طرح بلوچستان میں بھی ایک ایسا قانون نافذ ہونا چاہئے جس کی مدد سے بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث مجرموں کو پھانسیاں دی جائیں ۔قبل ازیں پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے۔

کہاکہ خواتین کو اسلام نے 14سو سال قبل جو مقام دیا وہ کوئی اور نہیں دے سکتا آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں درندے دھندناتے پھررہے ہیں جو بچیوں اور خواتین کو درندگی کانشانہ بنانے کے بعد انہیں قتل کررہے ہیں گزشتہ روز نواں کلی میں ایک چھوٹی بچی کو درندگی کانشانہ بنایاگیا اس حوالے سے انتہائی سخت سزائوں پرعملدرآمد کی ضرورت ہے۔

جس طرح دوسرے اسلامی ممالک میں سزائیں دی جاتی ہیں ایسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوں اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو نے کہاکہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے اس میں سخت اقدامات اٹھائے جائیں حکومت اور اپوزیشن مل کر کرداراداکریں تاکہ کسی اور کو آئندہ ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوں۔

بعدازاں قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی گئی۔ اجلاس میںبی این پی کے ثناء بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام ، سیاسی قائدین طلباء صحافی ا ور بالخصوص وکلاء برادری نے آئین وقانون کی بالادستی کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں 8اگست2016ء کو بلوچستان کے وکلاء برادری پر ایک بزدلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں صوبے کے57ممتاز اور مایہ ناز سینئر وکلاء کو شہید کیا گیا۔

وکلاء اس اجتماعی قتل عام کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ نے ایک کمیشں قائم کیا جس نے اس قومی سانحہ کے تمام پہلوئوں کا بغور جائزہ لے کر اس سے متعلق اہم سفارشات مرتب کیں ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ ان سفارشات پر من وعن عملدرآمد کو صوبائی اور وفاقی سطح پر بلا تعطل یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔

انہوںنے کہا کہ 8اگست2016ء کو ہونے والے بم دھماکے میں صوبے کے قابل اور نامور وکلاء کو شہید کیاگیا جن کا آئین اور قانون کے حوالے سے تیس پینتیس سال کا تجربہ تھا ان کی شہادت سے بلوچستان کو گیارہ سو سال کا نقصان پہنچا ہے مگر افسوس کہ 8اگست کو حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی بلکہ منعقدہ تقاریب میں بھی کسی حکومتی رکن نے شرکت تک نہیں۔

کی انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے قاضی فائز عیسیٰ کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی اور سفارشات دیں ان پر من و عن عملدرآمد کیا جائے اس موقع پر انہوںنے تجاویز دیں کہ آٹھ اگست کے واقعے کو بلوچستان کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے ہر سال اس دن کو سرکاری سطح پر منایا جائے اس روز کو یوم مکالمہ اور یوم احتساب کے طو رپر منانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے حالات اورموجودہ صورتحال میں امن وامان کے حوالے سے ہمیں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے ، اور آٹھ اگست کے واقعے سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر من وعن عمل کرکے صوبائی حکومت کے ایوان کو اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں ۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سانحہ 8اگست میں ایک پوری نسل کو شہید کیاگیا اس وقت کی حکومت نے وکلاء کے لواحقین کو معاوضے کی مدمیں ایک کروڑ روپے کی فراہمی اور ساتھ ہی ساتھ وکلاء کے بچوں کو ملک و بیرون ملک قانو ن کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے۔

فنڈ قائم کیا انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پر اگر عمل کیا جائے تو صوبے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ بہت سے واقعات کا خاتمہ ہوجائے گا انہوںنے مطالبہ کیا کہ کمیشن کی رپورٹ پر عمل کیا جائے ۔ بی این پی کے میر اکبر مینگل نے کہا کہ طے شدہ منصوبے کے تحت بلوچستان کے باشعور وکلاء طبقے کو ختم کیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد ہونا چاہئے بدامنی میں ملوث عناصر کی بیخ کنی کی بجائے اگر انہیں فنڈز دیئے جائیں گے تو امن وامان قائم کرنا ممکن نہیں یہ پالیسی تبدیل کرنی ہوگی ۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کسی المیہ سے کم نہیں صرف اگست نہیں بلکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہر مہینہ قتل عام اور ہزارہ برادری کی نسل کشی سے بھرا پڑا ہے۔

لیکن اب شدت پسندی و رجعت پسندی کا وقت گزر چکا ہے ہمیں ایک دوسرے کے احترام کی تبلیغ کرنی ہوگی قاضی فائزعیسیٰ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد ہونا چاہئے ۔ جے یوآئی کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ضرورت ہے آئے روز بدامنی کے واقعات ہورہے ہیں حکومت عوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ وہ پرسکون زندگی گزار سکیں ہم نے پہلے بھی ملک کے لئے قربانی دیں۔

اور آئندہ بھی دیں گے حکومت بدامنی کے واقعات پر قابو پانے کے لئے اقدامات اٹھائے ۔بعدازاں قرار داد منظور کرلی گئی ۔ اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سے ملک کے دیگر شہرو ں کے درمیان چلنے والی مختلف ریل گاڑیوں کو کورونا کی وجہ سے بند کردیا گیا۔

تھا لیکن اب حالات معمول پر آنے کے باوجودکوئٹہ سے صر ف ایک گاڑی جعفر ایکسپریس ہی چلتی ہے جو کہ صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے جبکہ اس کے برعکس ملک کے دیگر شہروں جن میں کراچی ٹو لاہور ، راولپنڈی ٹو کراچی ، لاہور ٹو کراچی اور دیگر شہروں کے درمیان ریل گاڑیاں اپنے معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔

لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ کوئٹہ سے ملک کے دیگر شہروں کے درمیان چلنے والی ریل گاڑیوں کو فوری طو رپر بحال اور سبی تاہرنائی ٹرین سرس کو بھی شروع کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔انہوںنے کہا کہ کوئٹہ سے دس ٹرینین چلتی تھیں جو اب صرف ایک پر آگئی ہیں۔

پنجاب سے 44، سندھ سے16، خیبر پختونخوا سے14ٹرینیں چلتی ہیں بلوچستان میں اندرون صوبہ چلنے والی ٹرینیں بھی بند ہوگئی ہیں ٹرینوں کی بندش سے لوگوں کا روزگار متاثر ہورہا ہے عوام بھی سفری سہولیات سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے بین الصوبائی اور اندرون صوبہ چلنے والی ٹرینوں اور ہرنائی ٹریک کو بحال کیا جائے۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر محکمہ توانائی کی توجہ مبذول کرائی کہ بلوچستان میں بجلی کے نظام اور سپلائی میں خرابی اور ناقص انتظام کے باعث اس شدید گرمی میں عوام اذیت اور کرب کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ کیا حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی کی ہے۔

اور بالخصوص مکران اور رخشان ڈویژن میں بجلی کے مسئلے کے حل کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اس کی تفصیل فراہم کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ عید کے موقع پر خواتین اور بچے بجلی کے لئے احتجاج کررہے تھے ہمار ے ہاں بجلی کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا جس کا واضح ثبوت انرجی رپورٹ ہے انہوںنے کہا کہ ہم اسمبلی میں مسائل اٹھاتے ہیں اور ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔

پی ایس ڈی پی میں ایک حلقے کے لئے ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے کسی ایک ضلع میں بھی بجلی کی سکیمات نہیں ڈالی گئیں۔ابھی وہ بات کررہے تھے کہ میر ضیاء لانگو نے کہا کہ اپوزیشن رکن ایکٹنگ کررہے ہیں ان کی بات کا نہ سر ہے نہ پائوں وہ صرف کیمرے کے لئے باتیں کررہے ہیں عوام باشعور ہوگئے ہیں وہ ان کو سمجھنے لگے ہیں جس کے جواب میں ثناء بلوچ نے ۔

کہا کہ ایکٹنگ اربوں روپے کے چاکلیٹ اور کیلوں کے لئے کی جاتی ہے ہم خاموش ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں حکومت کی کرپشن کا معلوم نہیں پارلیمانی سیکرٹری عبدالرشید بلوچ نے کہا کہ کیا اسمبلی اس طرح چلے گی کہ جب کوئی پارلیمانی سیکرٹری جواب دینے کے لئے کھڑا ہوتو اپوزیشن کہتی ہے کہ ان کا جواب ہمیں منظور نہیں اور جب جواب نہ دیں تو کہتے ہیں۔

کہ کوئی جواب نہیں دیتا ۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری جواب نہیں دے سکتا جب کوئی جواب دینے والا نہیں ہے تو حکومت استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتی ۔ خلیل جارج نے کہا کہ ہم جواب دے سکتے ہیں ۔ صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو نے کہا کہ اپوزیشن کو جواب سننا ہی نہیں ہے وزراء کابینہ کے اجلاس کی وجہ سے نہیں آئے وہاں صوبے کے اہم مسائل پر بات ہورہی ہے۔

چیئرمین قادر علی نائل نے توجہ دلائونوٹس نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی نمائندوں کو اجلاسوں میں موجود ہونا چاہئے تاکہ ایوان کا وقت ضائع نہ ہو انہوںنے کہا کہ صوبائی حکومت وفاق سے رابطہ کرکے مکران ڈویژن کو بجلی کی ترسیل یقینی بنائے اور جومسئلہ ہے اسے حل کرے ۔ بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ کیسکو کے ساتھ اجلاس رکھیں تاکہ وہ اصل مسئلہ بیان کریں حکومت بجلی حاصل کرنے میں ناکام ہے صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو نے۔

کہا کہ کیسکو سے رابطہ کیا گیا ہے ہمیں بجلی کم مل رہی ہے جس کی وجہ سے بحران ہے اس مسئلے کو وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے ۔ بی این پی کے رکن میر حمل کلمتی نے کہا کہ گوادر کے علاقے پشوکان میں عید سے قبل گرنے والے 32کھمبے آج تک ٹھیک نہیں کئے جاسکے کسی علاقے کا ٹرانسفارمر خراب ہو تو دو ماہ تک ٹرانسفارمر ٹھیک نہیں کیا جاتا80فیصد بل دینے والے علاقے کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہاں بل نہ دینے کی کال دی جائے۔

جس پر اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئر مین قادر علی نائل نے کہا کہ اس پر رکن اسمبلی قرار داد لے کر آیں ۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے محکمہ تعلیم سیکنڈری میں1447 ایس ایس ٹی کی پوسٹوں پر تحریری امتحانات منعقد ہوئے جس کا فائنل رزلٹ پندرہ دسمبر 2020ء کو آیا تھا لیکن تاحال ان اساتذہ کے باقاعدہ آرڈر جاری نہیں کئے گئے ہیں ۔

مذکورہ اساتذہ کے آرڈر جاری نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں اس کی تفصیل فراہم کی جائے ۔ انہوںنے چیئر مین سے استدعا کی کہ سیکرٹری تعلیم اور ڈائریکٹرہائیر سیکنڈر ایجوکیشن کو ہدایت کی جائے کہ وہ مذکورہ اساتذہ کی جلد از جلد تعیناتی کو یقینی بنائیں ۔جس پر چیئر مین قادر علی نائل نے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ سیکرٹری تعلیم کو مراسلہ لکھیں تاکہ ایس ایس ٹی اساتذہ کے تقرر نامے جاری ہوسکیں ۔اختر حسین لانگو نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے۔

کہا کہ صوبے سے جاری ہونے والے مقامی اخبارات کو کل کتنے اشتہارات دیئے جاتے ہیں اور کس طریقہ کار کے تحت دیئے جاتے ہیں اس کی تفصیل فراہم کی جائے ۔انہوںنے کہا کہ بڑے اخبارات کے علاوہ کوئٹہ سے جو چھوٹے اخبارات او ر پشتو ، بلوچی ، براہوئی اور دیگر زبانوں میں اخبارات و رسائل چھپتے ہیں وہ غیر یقینی کا شکار ہیں۔

پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے ایوان کو بتایا کہ 2013ء میں اخبارات کے اشتہارات کے لئے بنائی گئی پالیسی کے تحت تمام اخبارات کو قواعد کے مطابق اشتہارات کا اجراء کیا جارہا ہے پھر بھی اگر فاضل رکن چاہیں تو وہ اس پر سوال لے کر آئیں۔

تاکہ انہیں جاری ہونے والے اشتہارات کی مکمل تفصیل فراہم کی جاسکے ۔اس موقع پر چیئر مین قادر علی نائل کا کہنا تھا کہ مقامی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل وجرائد کے ساتھ اشتہارات کی تقسیم میں ناانصافی ہوتی ہے اس کا ازالہ کیا جائے ۔بعدازاں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کی رولنگ دی ۔