افغانستان پر طالبان نے اپنا کنٹرول مکمل کرلیا ہے اور اپنی عبوری حکومت کی تشکیل کے حوالے سے حکمت عملی تیار کررہے ہیں، ان کی جانب سے واضح طور پر بتایاجارہا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی اور فریق کے ساتھ مل کر حکومت ہرگز نہیں بنائینگے۔صدارتی محل پر بھی طالبان براجمان ہوچکے ہیں اس وقت افغانستان کا پورا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔
جبکہ امریکہ اوراس کے اتحادی اپنے لوگوں کی واپسی کیلئے ائیرآپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض ممالک نے اپنے سفارتخانے بند کردیئے ہیں مگر طالبان کی جانب سے انہیں سفارتخانے بند نہ کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتوں کاکہنا ہے کہ اس وقت وہ طالبان کی حکومت کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔برطانوی وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال پر پارلیمان کا اجلاس طلب کررکھا ہے تاکہ افغانستان کے حوالے سے وہ اپنی پالیسی بناسکیں۔
پوری دنیا کی نظریں اس وقت افغانستان پر لگی ہوئی ہیں کہ آگے چل کر طالبان کس طرح کی حکومت قائم کریں گے اور ہیومن رائٹس، خواتین کے حقوق سمیت دیگر معاملات پر ان کا طرز عمل کیا ہوگا۔ بہرحال اس تمام تر صورتحال میں افغان امور پر گرفت رکھنے والے پاکستانی مبصرین بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ فی الوقت پاکستان کو افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنی چاہئے اور کسی طرح کا ایسا بیان طالبان کی حمایت میں حکمرانوں کی جانب سے جاری نہ کیاجائے جو عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا سبب بنے کیونکہ اس وقت پاکستان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسے ثالث کے طور پر افغانستان کے حوالے سے فرنٹ لائن پر رکھ کر بات چیت آگے بڑھائیں۔
کیونکہ پاکستان اس معاملے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن کا امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا ء کا فیصلہ درست تھا۔ امریکی فوج کی واپسی کے فیصلے پرکوئی پچھتاوا نہیں۔ جانتا ہوں اس فیصلے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنوں گا۔ افغانستان کو تبدیل کرنا ہمارا مشن نہیں تھا، ہمارا مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور اسامہ کو پکڑنا تھا، ہم اس میں کامیاب رہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انخلا ء مکمل ہونے پرامریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انخلاء روکنے کی کوشش کی توسخت جواب دیں گے۔انہوں نے کہا کہ طالبان سے معاہدہ سابق صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ افغان جنگ میں مزید امریکی نسلیں نہیں جھونک سکتے۔
ہم نے اپنا سفارتخانہ بند کردیا اورعملے کو واپس بلالیا ہے۔ ضرورت پڑی تو افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف فوری ایکشن لیں گے۔امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کا تیزی سے خاتمہ حیرت کی بات ہے۔ افغان فورسز اگرلڑنا نہیں چاہتیں تواس میں امریکا کچھ نہیں کرسکتا۔ امریکی اس جنگ میں لڑ یا مر نہیں سکتے۔ افغان اپنے لیے لڑنے کو تیار نہیں۔ افغان فورسز کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے تھے۔انہوں نے خطاب میں کہا کہ اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اشرف غنی نے ہماری تجویز کو مسترد کیا اور کہا افغان فورسز لڑیں گی۔البتہ اب افغانستان میں آنے والے دن انتہائی اہم ہونگے پوری دنیا افغانستان پر نظریں لگائی ہوئی ہے کہ آگے چل کر طالبان مستقبل کے حوالے سے پارلیمانی نظام میں کس طرح کی تبدیلی لائیں گے اور دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے وہ اپنے ماضی کے رویے میں کیا تبدیلی لائیں گے جو سب کیلئے قابل قبول ہو،یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر افغانستان میں حالات کی تبدیلی کے اثرات خطے پر یقینا پڑینگے جنہیں منفی اورمثبت دونوں پہلوؤں سے دیکھنا ہوگا۔