|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2015

اسلام آباد:  سینیٹ کو حکومت کی جانب سے بتایاگیا کہ پاکستان میں 17 تا 23 سال کی عمر کے 8 فیصد افراد کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے ، جنوبی ایشیاء میں 26 فیصد اور جرمنی میں 43 فیصد افراد کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے ، موجودہ حکومت کی پہلی ترجیع اعلیٰ تعلیم ہے ، ایچ ای سی کا بجٹ بڑھا کر 70 ارب روپے کردیا ہے ، گزشتہ پانچ سال کے دوران خیبرپختونخوا کے 698 طلبہ و طالبات کو سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھجوایا گیا ، گزشتہ تین سال کے دوران ڈبلیو ایچ او نے پاکستان کو ایڈز ، ملیریا اور ٹی بی پر کنٹرول کیلئے 25 فیصد لاکھ ڈالر فراہم کیے ، پی ایم ڈی سی نے تین میڈیکل کالجوں کو قواعد و ضوابط نظر انداز کرکے بند کیا ، گزشتہ دو سال کے دوران اوورسیز ایمپلائز کارپوریشن نے 2831 ہنر مندوں کو روز گار کیلئے بیرون ملک بھجوایا ۔ وہ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں ارکان کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے ۔ حکومتی و اپوزیشن سینیٹرز نے اوورسیز ایمپلائز کارپوریشن کے ذریعے ہنر مندوں کو بیرون ملک بھجوانے میں صوبائی کوٹے کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز صدر الدین راشدی نے ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں محمد عتیق کے سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن سے 25 ملازمین کو مختلف الزامات کی بنا پر برطرف کیا گیا ، پانچ ملازمین کو مستقل جبکہ 125 نئے ملازمین بھرتی کیے گئے ۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ بھرتیوں میں صوبائی کوٹے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ، سینیٹر احمد حسن کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی نے کہا کہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹریننگ کمیشن کے پاس سوات میں ووکیشنل ٹریننگ سنٹر کے قیام کا منصوبہ زیر غور ہے یہ جوائنٹ وینچر کے ذریعے قائم کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے ، سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ وزارت اوورز سیز پاکستانیز کے ماتحت ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا معیار انتہائی کم ہے ، بہتر ہوگا کہ انہیں صوبائی ٹیوٹا میں ضم کردیا جائے جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ لوگوں کو معیاری تربیت کی فراہمی کیلئے جوائنٹ وینچرکررہے ہیں ۔ سینیٹر احمد حسن کے ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر صدر الدین راشدی نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران اوورسیز ایمپلائز کارپوریشن 2831 افراد سندھ سے 581 افراد ، خیبرپختونخوا سے 380 ، بلوچستان سے 16 ، آزاد کشمیر 20 ، گلگت بلتستان 7 ، فاٹا 23 جبکہ اسلام آباد سے 51 افراد کو شامل کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اوورسیز ایمپلائز کارپوریشن کے ذریعے وہی لوگ بیرون ملک جاتے ہیں جو انٹرویو پاس کرتے ہیں ۔ بابر اعوان نے سوال اٹھایا کہ اس میں صوبائی کوٹے پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا ، اس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ بیرون ملک جانیوالے افراد کو وہاں کے افسر منتخب کرتے ہیں جبکہ آئندہ صوبائی کوٹے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کراتا ہوں ۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر محمد عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ ناانصافی ہے کہ بیرون ملک جانیوالے 2831 افراد میں بلوچستان کے صرف 16 جبکہ فاٹا کے 23 افراد شامل ہیں ۔ سینیٹر طلحٰہ محمود کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ایم ڈی کو بلا کر اس کا حل نکالیں گے ۔ وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمن نے سینیٹر احمد حسن کے سوال پر کہا کہ ہائیرایجوکیشن کمیشن کے ذریعے گزشتہ پانچ سال کے دوران خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 698 طلبہ و طالبات کو اعلیٰ ترعلیم کیلئے سکالر شپ پر بیرون ملک بھجوایا گیا ، ایک ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ طلبہ و طالبات کو سکالر شپ پر بیرون ملک بھجوانے کا ایک معیار مقرر ہے ، صرف انہی طلبہ و طالبات کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوایا جاتا ہے جو معیار پر پورا اترتے ہیں جبکہ گزشتہ سال بلوچستان سے کوٹے کے مطابق مطلوبہ تعداد میں طلبہ و طالبات معیار پر پورے نہیں اتر سکے تھے جس کی وجہ سے کیریٹریا کو نرم کرنا پڑا ، سینیٹر عائشہ رضا فاروق کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بلوچستان سے اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھجوائے جانیوالوں میں 23 فیصد طالبات شامل تھیں ۔ انہوں نے سینیٹر سراج الحق کے ضمنی سوال پر کہا کہ اعلیٰ تعلیم حکومت کی سب سے پہلی ترجیح ہے موجودہ حکومت نے آتے ہی ایچ ای سی کا بجٹ بڑھا کر 70 ارب روپے تک کردیا جبکہ ہم نے سکالر شپ کئی گنا بڑھا دی جس کیلئے 6 ارب روپے جبکہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کیلئے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں 1947 سے 2002 ء تک پی ایچ ڈی کی تعداد تین ہزار سے کم تھی جبکہ آج پی ایچ ڈی کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ گئی ہے ، ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے طلبہ و طالبات کو میرٹ پر بھجوایا جاتا ہے ، بیگم نزہت صادق کے سوال پر وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ ملازمت اور ہنر مندی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹریننگ کمیشن کے ذریعے متعدد سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں جس کے 5 لاکھ رجسٹرڈ ہوئی ہیں ۔ ایک ضمنی سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ مشرف دور میں کی گئی بے قاعدگیوں کی وجہ سے قطر کی حکومت پاکستانی محنت کشوں کی حوصلہ شکنی کررہی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے کوشش کرکے دو لاکھ کا کوٹہ منظور کرایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 17 سے 23 سال کے صرف 8 فیصد لوگوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں 26 فیصد اور جرمنی میں 43 فیصد ہے ۔ وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیز صدر الدین راشدی نے کہا کہ 1981ء سے اب تک اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن نے سمندر پار پاکستانیوں کیلئے 12 ہاؤسنگ سکیمیں شروع کیں جبکہ اس دوران 30 رہائش اور 8 کمرشل پلاٹ منسوخ کیے گئے جو عدم ادائیگی کی بنیاد پر ہوئے الاٹیوں کو نوٹس بھجوائیں گے کہ وہ تین ماہ میں پلاٹ کا قبضہ لیکر تعمیرات شروع کریں ۔ وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان کو ایڈز ، ٹی بی ، ملیریا کیلئے 2463471 ڈالر ، این سی ڈی کیلئے 414518 ڈالر جبکہ ایم این سی ایچ کیلئے 5118726 ڈالر فراہم کیے ۔ سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کے ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک ہزار افراد میں 177 افراد ٹی بی میں مبتلا ہیں جبکہ 100 سے زائد نہیں ہونے چاہئیں ۔ سینیٹر روبینہ خالد کے سوال پر وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے رسمی قاعدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے الرازی میڈیکل کالج پشاور ، حشمت میڈیکل کالج گجرات اور ساہیوال میڈیکل کالج ساہیوال کی بندش کی سفارش کی تھی جبکہ ان میڈیکل کالجوں کا معاملہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے ، انہوں نے کاہ کہ پی ایم ڈی سی کو چاہیے تھا کہ مذکورہ میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو ان کی بندش سے قبل دوسرے میڈیکل کالجوں میں بھجوانے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا اور بتانا چاہیے تھا ۔ ایوان بالا میں نکتہ اعتراض پر اراکین نے کراچی میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی مداخلت کے بغیر یہ کاروائیاں ممکن نہیں، لوئر سندھ میں لوڈ شیڈنگ میں بہت اضافہ ہو گیا ہے، بجلی ہے نہیں اور بل زیادہ آ رہے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اوگرا کو ڈس فنکشنل کیا ہوا ہے، اوگرا کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جبکہ چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود اوگرا کی کارروائی اور قانونی حیثیت کے معاملے پر حکومت سے پیر کو جواب طلب کر لیا ہے اوربھارتی ریاست گجرات اور مہاراشٹر کے ساتھ تجارت کے لئے کھوکھرا پار کا راستہ کھولنے کا معاملے پر سینیٹر تاج حیدر کو توجہ مبذول نوٹس کی تجویز دی۔ جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس کے اختتام سے قبل چیئرمین سینیٹ نے ارکان کو 15 منٹ تک عوامی اہمیت کے نکتہ پر بات کرنے کی اجازت دی۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں فاٹا کی کوئی نمائندگی نہیں ہے، صوبوں کے وزیر اعلیٰ اپنے صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کونسل میں فاٹا کا ممبر بھی شامل کیا جائے تاکہ ہمارے مفادات کا تحفظ بھی ہو سکے۔ چیئرمین نے کہا کہ یہ آئینی مسئلہ ہے، حکومت اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔ عوامی اہمیت کے نکتہ پر سسی پلیجو نے کہا کہ لوئر سندھ میں لوڈ شیڈنگ میں بہت اضافہ ہو گیا ہے، بجلی ہے نہیں اور بل زیادہ آ رہے ہیں۔ چیئرمین نے ہدایت کی کہ یہ معاملہ وزارت پانی و بجلی کو بھجوا دیا جائے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ کراچی میں کل بھی ایک ایس ایچ او کو شہید کیا گیا ہے اس سے قبل بھی دو ایس ایچ اوز اور ایک ڈی ایس پی کو شہید کیا جا چکا ہے، کراچی میں پولیس بے بس ہو چکی ہے، پولیس کا مورال گرا ہوا ہے، سیکورٹی ادارے اس صورتحال پر توجہ دیں، بیرونی مداخلت سے یہ صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کھوکھرا پار پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے تاکہ گجرات اور مہاراشٹر کے ساتھ تجارت ہو سکے، 3 صوبوں میں اگر زمینی راستوں کی سہولت ہے تو سندھ کو بھی ایسی سہولت ملنی چاہیے۔ چیئرمین سینیٹ نے انہیں تجویز کیا کہ وہ اس معاملے پر توجہ مبذول نوٹس جمع کرا دیں تاکہ اس معاملے کو مناسب طور پر اہمیت مل سکے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اوگرا کو ڈس فنکشنل کیا ہوا ہے، پھر یہ کیسے کام کر رہی ہے، اس کی کارروائی غیر قانونی ہے، اوگرا کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس معاملے کا نوٹس لیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے اس معاملے کو میں کمیٹی کو بھیجنا نہیں چاہتا، حکومت اس معاملے پر پیر کو ایوان میں جواب دے، ورنہ معاملہ کمیٹی میں بھجوانا پڑے گا۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کل فوجی عدالتوں کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے، حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے، حکومت ایسے اداروں کی بھی نجکاری کر رہی ہے جو منافع میں ہیں ان میں ایچ بی ایل بھی ہے اس حوالے ے میں نے توجہ مبذول نوٹس بھی جمع کرایا ہے۔ سینیٹ کا اجلاس پیر کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔