بلوچستان حکومت کی ایک بار پھر مشکلات بڑھنے اور بڑی تبدیلی کی پیشنگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان سے اپنی ہی پارٹی کے صوبائی مشیر برائے فشریز اکبر آسکانی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا عندیہ دیا جس کا سبب اکبر آسکانی کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کا گلہ ہے کہ محکمے میں مداخلت اور وزیراعلیٰ کی جانب سے وعدوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا مگر اکبر آسکانی کی جانب سے واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ پہلی بار وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے ناراضگی کا اظہار نہیں کیونکہ اس سے قبل سابق صوبائی وزیرتعلیم و پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمد رند نے اپنے گلے شکوئوں کے اظہارکے ساتھ وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم پر شدید تنقید سمیت سنگین نوعیت کے الزامات لگائے اور اپنی وزارت سے مستعفی ہوگئے جبکہ سردار صالح محمد بھوتانی قلمدان واپس لینے پر استعفیٰ دے چکے ہیں۔
حکمران جماعت کے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو بھی وزیر اعلیٰ سے سخت نالاں ہیں۔ بہر حال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے ان ناراضگیوں کا سلسلہ گزشتہ 3 سالوں سے جاری ہے جبکہ فریقین کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کیلئے معاملات کو بعض اوقات بات چیت سے حل کیا گیا اور معاملات پھر حسب معمول دوستانہ ماحول میں چلتے رہے مگر یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں اور ان میں اب بعض حد تک تلخی بھی درآئی ہے۔
اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان کو اپنی جماعت کے اندر سے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ اتحادی جام کمال خان کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہے ہیں یقینا جام کمال خان اپنے اتحادیوں کو بعض حد تک خوش رکھے ہوئے ہیں اس لئے اتحادیوں کی جانب سے کسی قسم کا گلہ، فنڈز، محکمے میں مداخلت سمیت دیگر معاملات پر کوئی شکوہ سامنے نہیں آیا ماسوائے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے جنہوں نے اختلافات کے بعد اپنی وزارت سے مستعفی ہوگئے۔
مگر پی ٹی آئی کے دیگر اراکین سردار یار محمد رند کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دیئے جو ان کی اپنی جماعت کا اندرونی معاملہ ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان ہم آہنگی اور تعلقات انتہائی مضبوط ہیں اس لئے پی ٹی آئی کے دیگر ارکان حکومت کے ساتھ چل رہے ہیں۔
البتہ پیپلز پارٹی میں بلوچستان کی اہم سیاسی و قبائلی شخصیات کی شمولیت کے بعد یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ پیپلز پارٹی میں آئندہ چند ماہ کے دوران بعض حکومتی ارکان کی شرکت متوقع ہے جو اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان سے نالاں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جام کمال خان اندرون خانہ پارٹی کو مزید انتشار اور اختلافات سے بچانے کیلئے اپنی جماعت کے اراکین کو ساتھ لیکر چلیں گے یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی بڑے سیاسی بحران کا سامنا کرے گی جس سے کسی بھی بڑی تبدیلی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔