|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے صوبے میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے بجلی کی بندش سے زمینداروں اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے وعدے کے مطابق بلوچستان کو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو اسپیکر میر جان محمد جمالی کی صدارت میں مقررہ وقت سے نصف گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ سردار مصطفی خان ترین نے کہا کہ ہمارے صوبے کے ساتھ واپڈا کی جانب سے ظلم کا سلسلہ جاری ہے صوبے میں عوام کا ذریعہ معاش زراعت وابستہ ہے مگر واپڈا زور آوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں بجلی سے محروم رکھ رہا ہے حالانکہ وزیراعلیٰ کی پہلے یہاں اور پھر اسلام آباد میں واپڈا حکام سے ملاقات ہوئی تھی جس میں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ 10گھنٹے زمینداروں کو بجلی فراہم کی جائے گی اور اسی شرط پر زمینداروں نے 4ہزار کی بجائے ماہانہ 10ہزار روپے دینے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا مگر بدقسمتی سے اب واپڈا حکام نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور زمینداروں کو چوبیس گھنٹے میں بمشکل 2سے 4گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے ٹرانسمیشن لائنؤں کو بھی مکمل نہیں کیا جارہا ۔انہوں نے کہا کہ 70فیصد سے زائد بلوں کی ادائیگی کے باوجود عوام کو بجلی کی عدم فراہمی نا انصافی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں آپس میں الجھنے کی بجائے اتحادو اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آبادجاکر اس مسئلے کو حل کروانا ہوگا عوام نے ہمیں یہاں منتخب کرکے بھیجا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی بندش ہمارے عوام کا معاشی قتل ہے عوام سے روزگار چھینا جارہا ہے اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو بہت جلد اسمبلی کے باہر احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ یہ صوبے سمیت پورے ملک کا مسئلہ ہے مگر بلوچستان میں بجلی کا مسئلہ زیادہ اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں واپڈا حکام سے تفصیلی بات چیت ہوئی تھی کئی ایک مسائل تھے جن میں 2010سے 2012ء تک کے درمیان ختم ہونے والی سبسڈی کے بقایاجات تھے 15ہزار غیرقانونی ٹیوب ویلوں کو قانونی بنانا تھا ہم زمینداروں کو لیکر اسلام آباد گئے اور 15ہزار ٹیوب ویلوں کو قانونی بنایا جس پر پہلے ساڑھے 4ارب روپے سبسڈی دے رہے تھے جو اب بڑھ کر 12ارب روپے ہوگئی ہے اس طرح وفاقی حکومت بھی سبسڈی دے رہی ہے مجموعی طور پر زمینداروں کو 20ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں گندم پر بھی 2ارب روپے کی سبسڈی دے چکے ہیں ہم نے وفاق سے کہا کہ کیسکو کے عملے کی جانب سے بجلی کی چوری کی روک تھام کریں اور ہم نے زمینداروں سے بھی کہا ہے کہ و ہ میٹر لگائیں انہوں نے ہماری بات مان لی ہے ۔انہوں نے کہاکہ واپڈا نے 10گھنٹے بجلی دینے کا وعد ہ کیا تھا مگر اب نہیں دے رہا ہم نے کیسکو حکام کو بھی بلاکر کہا کہ معاہدے پرعملدرآمدکریں ۔انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ اس وقت زمینداروں کیلئے 60فیصد صوبہ اور 40فیصد وفاق سبسڈی دیتا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ صوبہ 40اور وفاق 60فیصد سبسڈی دے ۔انہوں نے کہا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزراء کے ساتھ مذاکرات میں وفاقی وزر پانی و بجلی نے یہ کہا تھا کہ ہمارے پاس بجلی ہے مگر بلوچستان کو اس لئے نہیں دیں گے کہ وہاں بجلی کی چوری ہوتی ہے وفاقی وزیر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ایسی بات کرتے اور کسی وزیر نے بھی وفاقی وزیر کے اس بات کا جواب نہیں دیا وفاق کا ہمیشہ رویہ ہمارے ساتھ خراب رہا ہے ۔میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی زمینداروں کیلئے سبسڈی کے خاتمے کی بھر پور مخالفت کی تھی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں واضح کیا تھا کہ بلوچستان میں 80فیصد عوام کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے سبسڈی ختم کرنے سے صوبے کے حالات خراب ہونگے صوبائی وزیر پی ایچ ای نواب ایا ز خان جوگیزئی نے کہا کہ بجلی کے مسئلے پر عوامی نمائندوں کی آواز دراصل پورے صوبے کے عوام کی آواز ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ عوام کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے لیکن لگاتا ہے کہ ہماری کوئی موثر پالیسی نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں بھی چاہتا ہوں کہ 24گھنٹے بجلی ہو لیکن ہم نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ اگر 24گھنٹے بجلی ہوگی تو صرف چند سال میں زیر زمین پانی ختم ہوجائے گا پھر ہم کیا کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئٹہ میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی کوئٹہ میں ڈرینج کا منصوبہ جو ہماری حکومت سے پہلے بناتھا میں نے اسکی پہلے بھی مخالفت کی تھی بارشوں کے بعد پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا واسا کی لائنیں پھٹ گئیں جس میں سیوریج کا پانی مل گیا ۔انہوں نے کہا کہ کیسکو کی جانب سے اس وقت صرف تین گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے زمینداروں نے ایک کی بجائے تین تین ٹیوب ویل لگالئے ہیں کہیں پر کیسکو کا عملہ نہیں ہوتا بجلی کا نظام بری طرح سے متاثر ہے ہم اربوں روپے بجلی کی مد میں سبسڈی دے رہے ہیں ہمیں اسکی بجائے ماڈرن زراعت کی طرف جانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہہ پانی زندگی ہے ہمیں اسے بچانا ہوگا۔ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے کہا کہ زرعی شعبہ ترقی کریگا تو عوام خوشحال ہونگے انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ ماہ ترکی کے دورے میں وہاں کے زرعی شعبے کا مشاہدہ کیا جو انتہائی جدیدطرز پر ہے اور ترکی بلوچستان سے اس سلسلے میں تعاون بھی کرنا چاہتا ہے زرعی اور آبپاشی کے نظام میں ترقی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔رکن اسمبلی منظوراحمدکاکڑ نے کہا کہ جو چیزیں ہمارے اختیار میں ہیں ان میں سے بھی ہم بہت سی چیزیں نہیں کرسکے ہیں ہمیں وفاق سے بھی بات کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردارمصطفی ترین نے گزشتہ سال موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی نشاندہی کی تھی اور اب پھر اسی موسم میں بات کر رہے ہیں یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس پر پورے سال کام ہونا چاہئے ۔صوبائی وزیر صحت میر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ ہم زرعی شعبے کیلئے سبسڈی دے رہے ہیں بل بھی آرہے ہیں مگر بجلی نہیں مکران کو ایران سے بجلی دی جاتی ہے وہاں بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے حالانکہ وہاں بجلی صرف گھریلو مقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہے ہم نے اپنے فنڈ سے بجلی کی فراہمی کیلئے 5کروڑ روپے کیسکو کو دیئے ہیں مگر 2سال سے ٹرانسفارمر فراہم نہیں کئے جارہے بلکہ سرعام فروخت ہورہے ہیں اسکا نوٹس لیا جائے ۔ثمینہ خان نے کہا کہ جب تک ہم ماڈرن زراعت کی طرف نہیں جائیں گے اور اپنی معیشت کو بہتر نہیں بنائیں گے تو ہم اپنے لوگوں کو کہاں ملازمت دیں گے زمینداروں کو مراعات دی جائیں لیکن زراعت کیلئے پالیسی تبدیل کی جائے تعلیم اور صحت کی طرح اس طرف بھی توجہ دی جائے ۔سید لیاقت آغا نے کہا کہ میرے حلقے میں گذشتہ ایک ہفتے سے بمشکل ایک آد ھ گھنٹے کیلئے بجلی فراہم کی جارہی ہے کیسکو کے سربراہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کیسکو کے حکام نے بتایا کہ اوچ میں خرابی کے باعث دو دن سے کچھ مسئلہ ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ ہمیں تو اوچ سے بجلی فراہم ہی نہیں کی جاتی اور اگر اوچ میں دو دن سے کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں ایک ہفتے سے یہ مسئلہ کیوں درپیش ہے تو انہوں نے کہا کہ خصوصی و فد بناکر وزیراعلیٰ اسلام آباد جائیں اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سے بات کریں کہ وہ یمن کا مسئلہ تو حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں ہماری بجلی کا مسئلہ بھی حل کریں۔ غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ پورے بلوچستان میں ایک آدھ علاقے کے سوا زراعت کا دارومدار ٹیوب ویلوں پر ہے اور ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں مگر یہاں پر بجلی نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں غیرقانونی ٹیوب ویلوں کا بوجھ بھی قانونی ٹیوب ویلوں پر پڑا غیر قانونی ٹیوب ویل کیسکو کے عملے کی ملی بھگت سے چلتے رہے مگر متاثرعوام ہوتے ہیں جون کا مہینہ آتے ہی چوری چھپانے کیلئے طویل لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اس وقت شدید گرمی میں بمشکل چند گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے عوام پس رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا طریقہ کار اپنایا جائے کہ کمیونٹی وارڈ سپلائی پی ایچ ای کے تحت کرکے عوام کو پینے کا پانی فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ واپڈا کے سامنے بولنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ کمیونٹی ٹیوب ویلز کوسبسڈی دی جائے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے کہا کہ زمینداروں کے مسئلے پر کمیٹی بنائی گئی تھی اسلام آباد سے بھی کمیٹی آئی جس نے کیسکو حکام سے کہا کہ وہ اپنے معاملات درست کرے اور اپنی کرپشن روکے ۔انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری بجلی کی ضرورت 16سے 17سو میگاواٹ ہے جبکہ اسوقت بمشکل 500میگاواٹ بجلی مل رہی ہے جب صورتحال یہ ہو تو پھر کیسے لوگوں کو بجلی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے پرانے نظام کی وجہ سے بجلی چوری ہوتی ہے ماضی میں 15ہزارٹیوب ویل قانونی اوراتنے ہی غیرقانونی تھے جس کااثرقانونی ٹیوب ویلوں پر پڑتا تھا ہم نے انہیں قانونی بنایا اور زمینداروں سے کہا کہ میٹر لگائیں تاکہ معلوم ہو کہ کتنی بجلی استعمال ہورہی ہے انہوں نے کہاکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بجلی کا انفراسٹرکچر نہیں جس کی وجہ سے ضرورت کے مطابق بجلی نہیں لے سکتے گزشتہ سال ہم نے 8ارب روپے منظور کئے تھے ٹرانسمیشن لائنوں کے بعد انفراسٹرکچر مکمل کرنا ہے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں حکام سے ملاقات کے دوران مطالبہ تھا کہ انہیں آٹھ گھنٹے بجلی کی دے جائے تو وہ ماہانہ دس ہزار روپے ادا کریں گے جس پر واپڈا حکام نے خود کہا تھا کہ انہیں 10گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی مگراب کیسکو کے مقامی حکام بجلی فراہم کرنے معذوری کا اظہار کر رہے ہیں جن سے وزیراعلیٰ نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خود پوچھا تھا کہ واپڈا حکام کی موجودگی میں انہوں نے ایسی کوئی بات کیوں نہیں کی ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسلام آباد ہمیں نظٖر انداز کر رہا ہے مگر یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کوئی بات کی اور وزراء نے اسکا جواب نہیں دیا بلکہ کسی زمیندار نے دیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ بالکل بے بنیاد ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیوب ویلوں کو قانون کے مطابق سبسڈی دی سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے 2ٹرانسمیشن لائنیں مکمل کرنا اس حکومت کا کریڈٹ ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں بجلی کی جو صورتحال ہے اس پر واپڈا نے بھی کیسکو سے معاملات کو درست کرنے کا کہا دوستوں کی شکایات ہیں تجویز ہے کہ کمیٹی بنائی جائے انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ وہ ایسی رولنگ دیں کہ اس معاملے میں پیش رفت ہو ۔انہوں نے کہا کہ یہاں پر 15ارب روپے سے پاور ہاؤسز لگانے کی بات کی گئی جبکہ اتنے میں 100میگاواٹ بنانا بھی مشکل ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے ہم اسکی اکائی ہیں مگر سولر انرجی میں ہمیں نظرانداز کیا جارہا ہے جس پر ہم خاموش نہیں رہیں گے اگر کسی کو ملک اور فیڈریشن سے محبت ہے تو اسے درست طریقے سے چلانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمیں فزبیلٹی رپورٹ بنانے کیلئے بھی کنسٹرٹ اداروں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ہماری بیوروکریسی کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ۔ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ فنڈز دیئے جانے کے باوجود کیسکو کی جانب سے ٹرانسفارمر نہیں ملتے کیسکو حکام اس جانب سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے گندم کی خریداری کیلئے سبسڈی دی ہے ژوب ڈویژن کے تمام اضلاع میں بھی گندم کی خریداری کے سینٹر قائم کئے جائیں۔ محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیرآبا د ڈویژن میں ہم نہروں سے پانی لیتے ہیں وہاں زیر زمین پانی کا کوئی مسئلہ نہیں نصیرآباد ڈویژن گرم ترین علاقہ ہے وہاں پر اوچ پاور پلانٹ ہونے کے باوجود ہمیں بجلی نہیں دی جارہی انہوں نے کہا کہ کیسکو انکے حلقے کیلئے ٹرانسفامر نہیں دے رہی ۔اس موقع پراسپیکرجان محمد جمالی نے کہا کہ جو کمیٹی واپڈا سے معاہدے کرکے آئی تھی اس پر ہر حال میں عملدرآمد ہونا چاہئے ورنہ زمیندار روز احتجاج کریں گے کیسکو کا طرز عمل درست نہیں پیسے دینے کے بعد ٹرانسفارمر ملنے چاہئے ۔پرنس احمد علی نے کہا کہ انکے حلقے میں کیسکو کے علاوہ کے الیکٹرک بھی بجلی فراہم کرتی ہے وہاں بھی یہی صورتحال ہے کیسکو کے ساتھ کے الیکٹرک سے بھی بات کی جائے۔