|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2021

بلوچستان کی سیاست کاایک اہم باب بندہوگیا۔بلوچستان کے عظیم بزرگ قوم پرست رہنماء سردارعطاء ا اللہ خان مینگل جمعرات 2ستمبر 2021کو کراچی کے نجی اسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کی سیاست کے اہم باب اور مرکزی کرداروں میں شامل تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل 1929ء کو سردار رسول بخش مینگل کے ہاںپیداہوئے ۔

سردار عطاء اللہ خان مینگل نے 92سال کی عمر پائی۔ سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے علاقے وڈھ سے تعلق رکھتے تھے وہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ تھے ۔ 1972ء تا 1973ء کے کم دورانیہ میں ان کی حکومت سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تحلیل کردی تھی۔سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی تاریخ انتہائی شاندار رہی ہے انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ بلوچستان کے حقوق کیلئے آخری دم تک وہ اپنے بیانیہ پر قائم رہے ۔سردارعطااللہ مینگل نے ظلم اورزیادتیاں دیکھیںاور ان کابراہ راست ذاتی طورپربہادری کے ساتھ مقابلہ بھی کیا۔سردارعطااللہ مینگل کے سیاسی دوستوں میں سب سے زیادہ قریب ان کے ہم عصرنواب خیربخش مری،میر غوث بخش بزنجواورنواب اکبرخان بگٹی خاص کر شامل تھے۔

سردارعطااللہ مینگل بلوچستان کے انتہائی جری اورسروں کی قربانی دینے والے خطے جھالاوان وڈھ سے تعلق رکھتے تھے جس کی ایک طویل تاریخ ہے انہی پہاڑوں میں نواب نوروزخان نے مزاحمتی تحریک چلائی تھی۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچستان کی مزاحمتی تحریک میں بھی حصہ لیاتھاانہوں نے طویل جلاوطنی بھی کاٹی۔ نواب خیربخش نے انیس سوتہترکی گوریلاجنگ کوسردارعطااللہ مینگل کے نام کیاتھا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل حیدرآبادسازش کیس کے مرکزی ملزم کی حیثیت سے جب رہاہوئے توانہیں بطوروزیراعلیٰ سبکدوش کرکے گرفتارکرلیاگیاتھا۔اس کے بعدوہ علاج کی غرض سے لندن چلے گئے اوروہاں سے اپنے پیغامات آڈیوکیسٹ کے ذریعے بھیجتے رہے۔میر غوث بخش بزنجوجب 11اگست 1989ء کو انتقال کرتے ہیں تو سردار عطاء اللہ مینگل لندن سے خصوصی طور پر اپنے دیرینہ ساتھی بزرگ قوم پرست رہنماء بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کی تدفین میں شرکت کرکے واپس لندن چلے جاتے ہیں۔

90ء کی دہائی کے بعد سردار عطاء اللہ خان مینگل جلاوطنی ترک کرکے دوبارہ وطن واپس آجاتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں کو تیز کرتے ہوئے اپنی نئی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھتے ہیں اس کے ساتھ ہی پونم اتحاد کی قیادت بھی کرتے ہیں جو مظلوم ومحکوم اقوام کے حقوق کے لئے تشکیل کردہ مختلف جماعتوں پر مبنی اتحاد تھی، اس فورم کے ذریعے انہوں نے بلوچستان سمیت ملک بھر کے محکوم اقوام کیلئے آوازبلند کی۔ 1997ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے مگر سردار عطاء اللہ مینگل نے کوئی حکومتی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھا اوراپنے فرزند سردار اختر مینگل کو انہوں نے فرنٹ لائن پر رکھا اس طرح سردار اختر مینگل 1997ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوجاتے ہیں مگر وہ بھی کچھ عرصے تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔

یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کو کبھی بھی زیادہ وقت حکومت کیلئے نہیں ملا مگر اس کے باوجود بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار قوم پرستوں کو ٹہرایاجاتا ہے۔ البتہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچستان کے حقیقی لیڈروں کو کس طرح سے دیوار سے لگاکر کٹھ پتلی حکومتیں بنائی گئیں اور ذاتی وگروہی مفادات کی سیاست کو پروان چڑھایاگیا۔بہرحال تاریخ میں آج بھی سردار عطاء اللہ مینگل جیسے عظیم ونڈر شخصیت کا کردار واضح ہے کہ انہوں نے اپنی تمام ترزندگی بلوچ قوم کی جدوجہد کیلئے وقف کردی تھی مگر اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج سردار عطاء اللہ خان مینگل ہمارے درمیان نہیںرہے لیکن ان کی جدوجہد کو ہمیشہ سنہرے حروف میںلکھاجائے گا۔جب بھی بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ذکر ہوگا سردار عطاء اللہ خان مینگل کا نام سرفہرست رہے گا۔ یقینا سردار عطاء اللہ مینگل جیسے عظیم رہنماء کاخلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔ آج بلوچستان ایک عظیم لیڈر سے محروم ہوگیا ،ایک عہد تا ریخ رقم کرتے ہوئے اس دنیا فانی سے کوچ کرگیا۔