ملکی سیاست میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے ، پیپلزپارٹی میں اہم شخصیات کی شمولیت سمیت عوامی اجتماعات میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے۔ گمان کیاجارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں کااہم مقصدآنے والے عام انتخابات کے حوالے سے پیشگی تیاریاں اور اس میں کامیابی حاصل کرنا ہے اس لئے اس نے دو محاذ بھی کھول دیئے ہیںحکومت اور پی ڈی ایم کے خلاف کھل کر تنقیدکررہی ہے ۔
یقینا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیپلزپارٹی بیک ڈور اپنے بعض سیاسی معاملات کو طے کرنے جارہی ہے تاکہ آنے والی حکومت کی بھاگ ڈور سنبھال سکے۔ گزشتہ روزرحیم یار خان میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان عوامی حکومت کو ترس گیا ہے، آئندہ پیپلزپارٹی وفاق اور صوبوں میں حکومت بنائے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی یا اپوزیشن کریں یا اعلان کریں کہ آپ حکومت کے سہولت کار ہیں۔ ایسے نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کی عزت کی بات ہو اور ووٹ کے استعمال کے وقت بھاگ جائیں، دوغلی پالیسی نہیں چلے گی یا اپوزیشن کریں یا اعلان کریں کہ آپ حکومت کے سہولت کار ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کی عزت کی بات ہو اور ضمنی الیکشن میں بائیکاٹ کی بات کریں، یہ نہیں ہوسکتا ووٹ کی عزت کی بات ہو مگر سینیٹ الیکشن آئے تو بائیکاٹ کی بات کریں۔ ہم کہتے ہیں ووٹ استعمال کریں، بزدار کو بھگائیں، عمران کو گھر بھیجیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کریں یا پھر کہیں آپ حکومت کے سہولت کار ہیں، پنجاب کے عوام منافقت کی سیاست کو تسلیم نہیں کریں گے، اب آپ کو کچھ کرناہوگا ورنہ پنجاب کے عوام جان جائیں گے کہ یہ منافقت ہے، اگر آپ تیار نہیں ہوئے تو عوام آپ کو معاف نہیں کریں گے، اگر آپ ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں تو بزدار کو چیلنج کریں، ہمارے ساتھ ملکر مقابلہ کریں، بزدار گرجائے گا۔
بلاول بھٹوزرداری نے وزیراعظم عمران خان کوبھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سلیکٹڈ نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا، عمران خان کا ہر ایک وعدہ جھوٹا نکلا، 90 روز میں کرپشن ختم کرنے اور 50 لاکھ گھربنانے کاوعدہ جھوٹا نکلا۔دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ جو پیشکش بلاول کو ہوئی وہ ہمیں بھی ہوئی لیکن ہم نے قبول نہیں کی۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم ٹوٹنے کا ذمہ دار بلاول بھٹو زرداری کو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں میرجعفر اور میر صادق ہونے کی وجہ سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو نقصان پہنچا، بلاول، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بریکٹ ہوئے۔مولانا فضل الرحمان کاکہنا تھا کہ استعفوں کا آپشن پی ڈی ایم کے اعلامیے میں موجود تھا، پیپلزپارٹی ہماری بات مانتی تو آج یہ حکومت ختم ہوچکی ہوتی اور آج الیکشن بھی ہو چکے ہوتے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت کچھ نوٹس میں ہے مگر ہم کوئی محاذ نہیں کھولنا چاہتے، اگر ہم محاذ کھولنے پر آگئے تو ایک سوئی بھی نہیں رہے گی۔بہرحال پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کو خیربادکہہ دیا ہے
اورواپسی کے موڈ میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی پنجاب حکومت گرانے کیلئے بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ پیپلزپارٹی سوچ بچار کررہی ہے بلکہ ن لیگ کے میدان میں آکر اسے شکست دینے کی پالیسی بنارہی ہے جس سے ن لیگ کی قیادت بخوبی آگاہ ہے مگر پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی اس بات کا اشارہ دے ہی ہے کہ اسے گرین سگنل مل چکا ہے اور اب وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تمام تر توجہ انتخابات پر مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ وہ باآسانی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے جو پہلے ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ جہاں تک مولانافضل الرحمان کی پیشکش کے متعلق انکشاف ہے تو اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ اپوزیشن جماعتوںکے ساتھ بھی مقتد رحلقے رابطے رکھے ہوئے ہیں خاص کر شہباز شریف کے ساتھ بات چیت کاسلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے مگر اس میں بڑی رکاوٹ مریم نواز ہیں اور مریم نواز کے ساتھ موجود ن لیگی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ جتنا بھی لچک کامظاہرہ ن لیگ کرے اس کے ساتھ دیرپا پالیسی کے ساتھ نہیں چلاجاسکتا اس لئے وقتی طور پر کچھ ریلیف ضرور مل سکتی ہے مگر سیاسی میدان میں کلین چٹ کی گنجائش نہیں دی جائے گی اس لئے ن لیگ بھی زیادہ سخت اور نرم پالیسی کی بجائے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے موقع کی تلاش میں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جس اعتماد کے ساتھ میدان میں موجود ہے کیاوہ اپنے اہدف حاصل کرنے میںکامیاب ہوجائے گی یہ فی الوقت ابہام میں ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پیپلزپارٹی کیلئے گراؤنڈ بنایاجارہا ہے۔