|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2021

ملک میں اداروں میں اصلاحات اور شفافیت پر ہر وقت سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور یہ اعتراضات خودوہی سیاسی جماعتیں کرتی رہی ہیں جو برسراقتدار رہے ہیں ۔عوام تو آج تک کسی بھی دور کے اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن نہیں ۔چونکہ ایلیٹ کلاس نے ہر وقت اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے قوانین میں تبدیلیاں کیں ، عوام سے پوچھا تک نہیں گیااور نہ ہی کبھی ان کی رائے لی گئی کیونکہ ایسا نظام ہی موجود نہیں کہ شفاف طریقے سے عوام کی رائے لیتے ہوئے اسے پبلک کیاجائے تاکہ واضح ہوسکے کہ عوام خود کیا چاہتی ہے عوام کی زندگیوں کا فیصلہ ہر وقت یہی ایک ہی طبقہ کرتا آیا ہے اور عوام پر اپنے فیصلے مسلط کرتا رہاہے۔ الیکشن سے لیکر احتساب تک خود ہی سیاسی جماعتوں نے اداروں کے ساتھ کھیلواڑ کیا ،اگر ان کے مفادات کے مطابق کوئی کام نہیں ہوتا تو بعدمیں اداروں پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے جاتے ہیں ۔

اب سب سے بڑامسئلہ اس وقت ملک میں شفاف انتخابات اور خاص کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے کا ہے اس پر ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ گزشتہ روز الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اور الیکشن کمیشن حکام میں تلخ کلامی ہوگئی۔وفاقی وزیر ،اعظم سواتی نے اجلاس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں۔ ایسے اداروں کو آگ لگا دیں۔الیکشن کمیشن ہمیشہ دھاندلی کرتارہا ہے۔وزیر ریلوے اعظم سواتی کے بیان پرالیکشن کمیشن حکام آگ بگولہ ہو گئے اور اجلاس سے واک آوٹ کر گئے۔

علی محمد خان الیکشن کمیشن حکام کومنانے کی کوشش کرتے رہے۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا، ہم بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے علی محمد خان سے اجلاس میں جانے سے معذرت کر لی۔اسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا حکومتی وزراء نے گزشتہ روزبھی اجلاس میں بدتمیزی کی۔اب الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگائے گئے۔ایسے ماحول میں قائمہ کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے۔ حکومتی وزراء کے رویے سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کریں گے۔الیکشن کمیشن کا وفد قائمہ کمیٹی اجلاس چھوڑ کر پارلیمنٹ ہاؤس سے چلا گیا۔ الیکشن کمیشن کے وفد کے جانے کے بعد مصطفی نواز کھوکھر بھی اعظم سواتی پر برس پڑے۔مصطفٰی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی بتائیں کہ الیکشن کمیشن نے کس سے پیسے لیے ہیں؟کیا الیکشن کمیشن نے ن لیگ یا پیپلز پارٹی سے پیسے لیے ؟ کامران مرتضیٰ نے کہا، یقین سے کہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن معاملے کو جان بوجھ کر اٹھایا گیا ہے۔وزیر ریلوے اعظم سواتی اپنے بیان پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اراکین کے اعتراض پر کہاکہ میں نے درست بات کی ہے۔

اجلاس میں بابر اعوان نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کے ای وی ایم پراعتراضات کا جواب دے گی۔ حکومت کو مؤقف پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔الیکشن کمیشن کا کام صاف، شفاف اورغیرجانبدارالیکشن کرانا ہے۔ الیکشن کمیشن پارٹی بازی میں نہ رہتے ہوئے قانون کے مطابق الیکشن کرائے گا۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ جو قانون بنائے گی الیکشن کمیشن اس کا پابند ہے۔ کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق پر اعتراضات نہیں لگاسکتا۔الیکشن کمیشن بتائے الیکٹرونک مشین سے کیسے سیکریسی نہیں رہے گی ؟ووٹنگ میں الیکٹرانک اور مینول دونوں سامنے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام گنتی مکمل نہیں ہو گی کوئی ریکارڈ لے کر نہیں نکل سکتا۔ای وی ایم میں ایک نظام ہے ، جس سے ووٹر کی تصدیق کا پیپرآڈٹ ہے۔سب کو سامنے گنتی ملے گی ، کوئی ٹیمپر نہیں کر سکتا۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کومسترد کرتے ہوئے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر 37 اعتراضات اٹھائے تھے اور اس کی تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی جمع کرادی تھی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے چنداہم اور چیدہ نکات میں ملاحظہ کیجئے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دیکھا نہیں جاسکتا۔ ای وی ایم کس کی تحویل میں رہیں گی؟ اس حوالے سے بھی کچھ نہیں بتایا جارہا۔ ای وی ایم کے استعمال سے کم از کم خرچہ 150ارب روپے آئے گا لیکن کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔الیکشن کمیشن نے اعتراض میں کہا تھاکہ ویئر ہاؤس اورٹرانسپورٹیشن میں مشینوں کے سافٹ ویئر تبدیل کیے جا سکتے ہیں اور بلیک باکس میں شفافیت پر سوال اٹھ سکتا ہے جبکہ ہر جگہ پر مشین کے استعمال کی صلاحیت پر سوال آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مشین کی منتقلی اور حفاظت پر سوالات ہوں گے۔بہرحال الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے اعتراضات اور حکومتی مؤقف دونوں سامنے ہیں۔

مگر ان سب کا جواب خود سیاسی جماعتوں کے پاس ہی موجود ہے کہ دھاندلی کس طرح اور کیسے ہوتی رہی ہے کیونکہ الیکشن پر اعتراضات ہمیشہ خود سیاسی جماعتوں نے اٹھائے ہیں عوام کبھی سڑکوںپر نکل کر نہیں آئی کہ دھاندلی ہوئی ہے ،عوام ہمیشہ اپنے بنیادی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر نکلی ہے اور آج بھی اپنے حقوق کیلئے سراپااحتجاج ہے ۔ البتہ سیاسی جماعتوں کے اپنے ہی اعمال کی وجہ سے آج تک اداروں میں نہ بہتر انداز میںاصلاحات کی گئیںاور نہ ہی شفافیت کا کوئی طریقہ کار واضح ہے۔ یہ عوام کی جنگ نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان تخت حکمرانی کی لڑائی ہے اور ہر سیاسی جماعت کی خواہش یہی ہے کہ وہ برسراقتدار آئے، اپنے ذاتی وگروہی مفادات کو حاصل کرسکے۔ اگر واقعی سنجیدگی سے ملک میں عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتیں اور ادارے کام کرنا چاہتے ہیں تو اس میںبدنیتی کے عنصر کا خاتمہ ضروری ہے ،اگر ذاتی وگروہی مفادات سے بالاتر ہوکر اصلاحات پر کام کیاجائے تو نتائج نکلیں گے وگرنہ مسائل اسی طرح برقرار رہیں گے اور ماضی کی طرح مستقبل میں بھی انتخابات پر دھاندلی کے سوالات اٹھاتے جاتے رہینگے ۔ عوام کو اس کا بخوبی علم ہے کہ چور دروازے سے کس طرح سے یہاں حکومتیں تشکیل دی گئی ہیں کس طرح کے سیاسی افراد کو اہم مناصب تک پہنچایا گیا ہے یہ خود ان کے حلقے کا عام سا ووٹر بھی بتاسکتا ہے مگر وہ جانتے ہیں ان کی رائے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔