|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2021

وفاقی حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کر دیا ہے۔وفاقی وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے ،ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بھی پانچ روپے جب کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 5.46 روپے اضافہ کیا ہے۔

پیٹرول کی نئی قیمت 123.30 روپے، ہائی اسپیڈل ڈیزل 120.4 روپے، مٹی کا تیل 92.26 روپے جبکہ لائٹ ڈیزل 90.69 روپے ہو گئی ہے۔گزشتہ روز ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں ساڑھے دس روپے اور پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ فی لٹر اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری موجودہ لیوی اور جی ایس ٹی کے مطابق تیار کی گئی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد یکم ستمبر 2018 کو پیٹرول کی قیمت 92 روپے 83 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 106 روپے 57 پیسے فی لیٹر تھی۔ اب پیٹرول کی نئی قیمت 123روپے 30پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ڈیزل 120روپے 4 پیسے فی لیٹرمیں دستیاب ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پیٹرول کی قیمت میں اب تک 30روپے 47پیسے فی لیٹر اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈیزل کی قیمت اب تک 13روپے 83پیسے فی لیٹر بڑھ چکی ہے۔مسلم لیگ ن جون 2013 ء میں اقتدار میں آئی تو پیٹرول کی قیمت 100 روپے 63 پیسے فی لیٹر تھی اور ڈیزل 105 روپے 50 پیسے فی لیٹر میں دستیاب تھا۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے پر یکم جون 2013 کو پیٹرول کی قیمت 87 روپے 70 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 98 روپے 76 پیسے فی لیٹر تھی۔ن لیگ کے دور میں پیٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر12 روپے 93 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 6 روپے 74 پیسے کی کمی ہوئی۔مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پیٹرول کی سب سے زیادہ قیمت 113 روپے 24 پیسے فی لیٹر تک گئی تھی۔ ڈیزل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 116 روپے 95 پیسے فی لیٹر رہی۔پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو یکم اپریل 2008 ء کو پیٹرول کی قیمت 65 روپے 81 پیسے فی لیٹر تھی اور ایک لیٹر ڈیزل 47 روپے 13 پیسے میں دستیاب تھا۔پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے پر یکم اپریل 2013ء کو پیٹرول کی قیمت 102 روپے 30 پیسے اور ڈیزل کی 108 روپے 59 پیسے فی لیٹر تھی۔پیپلز پارٹی کے دور میں پیٹرول کی زیادہ سے زیادہ قیمت 108 روپے 45 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی 115 روپے 52 پیسے تک پہنچی تھی۔

یہ اعداد وشمار کسی بھی ادارے نے سروے کرکے شائع نہیں کیے بلکہ یہ دستاویزات پر موجود حقیقت پر مبنی تفصیلات ہیں۔ ماضی اور موجودہ دور حکومت میں فرق واضح طور پر نظر آرہا ہے مگر حکومتی وزراء کی جانب سے اب بھی یہی جواز پیش کیاجارہا ہے کہ دیگر ممالک کی نسبت ہماری کرنسی کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ نہیں ہیں مگر اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ دیگر ممالک کی معیشت اور کرنسی ویلیو کہاں تک پہنچی ہے اور وہاں پر فی کس آمدن روزانہ کتنا ہے۔ ان اعداد وشمار پر تبصرے سے گریز کرکے حقائق کو مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔

ا ب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے ، مزید پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے کے بعد عوام کیلئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل تر ہوجائے گا ۔ جس تبدیلی کے دعوے کئے گئے تھے آج اس کے برعکس تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے غریب عوام کی داد رسی کرنے کی بجائے مزید بوجھ بڑھایاجارہا ہے جو حکومتی گورننس پر سوالیہ نشان ہے۔