بلوچستان میں سیاسی استحکام اہم اور بنیادی مسئلہ ہے مگر اس پر کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ بحث نہیں کی گئی ۔ بلوچستان کے سماجی، معاشرتی حالات کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔گوکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے مگر آج کے حالات میں اس بات کو دہرانا جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں، البتہ ہمارے یہاں اس کی مثال بارہا سیاستدانوں کی طرف سے دی جاتی ہے ۔ روایات کی آڑ میں جس طرح سے بلوچستان کے ساتھ سیاسی کھیلواڑ کیاگیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تاریخی تناظر میں قبائلی معاشرے کا جائزہ لیاجائے تو 2000ء کی دہائی تک معتبر وقابل احترام قبائلی سیاستدانوں نے چند عہدوں اورمحکموں کے عوض روایات کی امین سرزمین میں بسنے والے عوام کے ساتھ دروغ گوئی اور فراڈ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی یہ کوشش کی کہ چور دروازے سے بلوچستان کی تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کا سہرا اپنے سرسجاکر پھر معتبر اور اعلیٰ بننے کیلئے ڈرامائی کردار کے طور پر اپنی قبائلی وسیاسی شخصیت کو مسخ کریں
بلکہ اپنے نظریات اور اس سرزمین کے ساتھ مخلصانہ وفاداری کی قیمت چکاتے ہوئے سب کچھ قربان کیا مگر چند مراعات کیلئے روایات کو ڈھال بناکر فراڈیہ سیاست نہیں کی، اور نہ ہی اس طرح کے عمل کا حصہ بنے کہ تاریخ انہیں منفی کردار میں یادکرے ،قطعاََ وہ سیاسی انجینئرنگ اور کٹھ پتلی نمائندہ بننے کیلئے تیارنہیں ہوئے جس کا خمیازہ انہوں نے ضرور بھگتا مگر جب بھی بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ذکر کیا جاتا ہے ان عظیم شخصیات کانام ضرور آتا ہے جس سے آج کے نوجوان بھی بخوبی واقف ہیں کہ ان کے آباؤاجداد نے کس طرح کی قبائلی وسیاسی تاریخ وراثت میں ان کو دی ہے ۔
بہرحال بلوچستان کو سیاسی استحکام اور حقیقی نمائندگی سے محروم رکھنے کیلئے ہر دور میں سازشیں کی گئیں تاکہ یہاں عدم استحکام اسی طرح برقرار رہے اور چند مخصوص ٹولوں کے ذریعے بلوچستان کا استحصال بھی آسانی سے کیاجاسکے اور کٹھ پتلی نمائندگان کوچند مراعات دے کر ان کے ذریعے ہر دو نمبری کے کام باآسانی کرائے جاسکیں۔ بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پربہت تبصرہ اوربحث مباحثہ کیاجارہا ہے اور اس میں ناراضگی جیسے لفظ کو استعمال کرکے سیاست جیسے عظیم پیشے کا مذاق بنایاجارہا ہے ۔تعجب کی بات ہے کہ جو سیاسی شخصیات آج اپنی بے اختیاری پر نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ حکومت کا حصہ ہوکر بھی ان کو وہ عزت اوروقار نہیں دی جارہی ،اسی لئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے ناراض ہوکر عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بن کر اپوزیشن کے ساتھ بیک فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ انہی حضرات نے نواب ثناء اللہ زہری کاتختہ الٹ دیا اور جواز بھی یہی پیش کیا جو آج جام کمال خان کے خلاف دیاجارہا ہے
۔ انہی حضرات نے موجودہ باپ کی بنیاد رکھی اور یہ دعویٰ کیا کہ باپ ایک نظریاتی اور حقیقی نمائندہ جماعت کے طور پر بلوچستان کے عوام کیلئے تشکیل دی جارہی ہے تاکہ بلوچستان سے محرومیوں وپسماندگی کے خاتمے کو یقینی بنایاجاسکے اوریہ کہ باہر سے ڈکٹیشن نہیں لینگے ۔ان دعوؤں سے سب ہی واقف ہیں کہ عملاََ تین سال کے دوران کتنا بڑاکارنامہ سرانجام دیاگیا۔بہرحال جام کمال خان سے جو شکوے وزراء اور حکومتی اراکین کا ہے کم ازکم دو حکومتی عہدیداران کے سوادیگر بھی فرنٹ میں آکر بتائیں کہ ان کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیا زیادتیاں کی ہیں تاکہ ابہام ختم ہوسکے اور حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔ مگر شومئی قسمت ماسوائے ایک دو ارکان کے کسی اور نے لب کشائی نہیںکی۔ لہٰذا ناراض وزراء اورحکومتی ارکان کھل کر سامنے آئیں ،اپنی ناراضگی کا اظہار کریں اور اصل حقائق کو سامنے لائیںمگر افسوس یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ جنگ تخت، اختیارات اور فنڈز کی ہے اور سب اپنے ذاتی مفادات کیلئے ناراض ہیں۔ اگر عوامی مسائل پر یہ جنگ ہوتی تو بلوچستان کے زمینی حقائق اور نقشہ کچھ اور ہی ہوتا ۔