|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2021

بلوچستان میں وزراء اعلیٰ کی رخصتی ایک بہت بڑی تاریخ رکھتی ہے کہ کس طرح سے منتخب وزراء اعلیٰ کو خود جمہوری حکومت کے علمبردار شخصیات نے ان کی حکومت ختم کرکے گھربھیجا ۔1972ء میں جب عام انتخابات ہوئے تو نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اپنی حکومت بنائی ، اس طرح پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل منتخب ہوئے مگر شومئی قسمتی مرکز کی بلوچستان میں بے جا مداخلت ، انتظامی امور میں اپنا اثر ونفوذ بڑھانے کیلئے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہر طرح سے اپنادباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

مگر بلوچستان کے نہ صرف حقیقی بلکہ جمہوریت اور ترقی پسند شخصیات پر مشتمل نیپ کے ارکان نے کسی طرح بھی مرکز کے سامنے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہوئے صوبائی معاملات چلاتے رہے جوکہ ذوالفقار علی بھٹو کیلئے ایک چیلنج بن چکا تھا۔اور انہوں نے نیپ کی حکومت تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کردیا اس طرح پہلے منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان کو اس کی کابینہ سے غیر جمہوری طریقے سے الگ کرکے ان پر کیسز لگائے گئے اور نیپ کے قائدین کو جیل بھیجا گیا۔ بعدازاں جوحالات بنے اس کی ایک لمبی تاریخ ہے کہ بلوچستان میں شورش نے کس طرح جنم لیا اور نیپ کے پارلیمانی اور جمہوریت پسند شخصیات کو مزاحمت کی طرف دھکیلا گیا۔

دوسری بار حکومتی تحلیل کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اِن ہاؤس تبدیلی جیسے حربوں کا سہارا لیتے ہوئے پسند وناپسند حکومتوں کی تشکیل جیسے فارمولے پر کام کیا گیا۔ بلوچستان میں تین وزراء اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور ان کی حکومت کا خاتمہ کرکے رخصت کیا گیا۔تینوں تحریکوں میں ایک بات مشترک یہ رہی کہ ایوان میں پیش ہونے سے قبل ہی وزراء اعلیٰ نے استعفیٰ دیا۔ ستر سال سے زائد عرصہ کے دوران اتنی بڑی تبدیلیوں کے باوجود بلوچستان میں کونسی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ،کیا بلوچستان کی عوام کے حالات بدلے ؟بلوچستان میں گڈگورننس بہتر ہوئی؟ بلوچستان صوبائی معاملات چلانے میں آزاد رہی؟ انتظامی معاملات سے لے کر بجٹ اور فنڈز تک انہیں وفاق سے کتنا ریلیف ملا؟ بلوچستان کے ساحل اور وسائل سے یہاں کے عوام کوکیا فائدہ پہنچا؟ صوبائی حکومت اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے منصوبوں میںبراہ راست شراکت دار بنی؟ بلوچستان کے ساحل اور وسائل سے خود صوبائی حکومتوں نے کتنا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا بہترین بجٹ بنایا؟ کتنے نئے منصوبے خود بلوچستان نے اپنے محاصل سے شروع کئے؟ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جسے تبدیلی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے مگر ایسا کچھ نہیںہوا بلکہ اپنے مفادات سے آگے کبھی سوچا ہی نہیں گیا ۔

تلخ سوالات بہت زیادہ ہیں المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی شخصیات اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو ہضم نہیں کرتے ۔بلو چستان اگر آج پسماندہ ہے تو اس کاذمہ دار وفاق کے ساتھ ساتھ خود بلوچستان کے سیاسی نمائندگان بھی ہیں جنہوں نے محض کرسی اور چند مراعات کی خاطر بلوچستان کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔ جتنی بلوچستان میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اتنی دیگر صوبوں میں کیوں نہیں ہوئی ،بار بار بلوچستان میں سیاسی بحران کیوں پیدا کیا جاتا ہے ۔ خدارا بلوچستان کے سیاست دان ملک بھر میں اپنی جگ ہنسائی کاسبب نہ بنیں بلکہ حکومت واپوزیشن دونوں انتظامی معاملات سے لیکر فنڈز کے حوالے سے ملکر مشترکہ طورپر کام کریں اور یہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام پارلیمانی ارکان کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہوئے ایگزیکٹیو کاعملاََ کردار ادا کریں ،وگرنہ جام کمال خان کی رخصتی کے بعد پھر ایک نئے وزیراعلیٰ آئینگے پھر عام انتخابات کے ذریعے ایک نیا وزیراعلیٰ منتخب ہوگا، پھر وہی اختلافات اور بحرانات نئی عدم اعتماد کی تحریک کی تیاری یعنی بلوچستان مسائلستان بنتاجائے گا مگر سیاسی نمائندگان اپنے مفادات سے آگے نہیں سوچیں گے جوبلوچستان کے لوگوں کے مستقبل کیلئے انتہائی تاریک ثابت ہوگا اورتاریخ انہی شخصیات کو ہی ذمہ دار ٹہرائے گی۔