کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ہر کسی کو اس کی خواہش پر وزارت دی جائے ،ناراض ارکان میں اکثریت وزارتوں پر براجمان ہے ،مثبت کام کی مخالفت اپوزیشن کا وطیرہ ہے متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی ،جب اپوزیشن حلقوں میں ترقیاتی کام جاری ہے تو پھر بی اے پی کے ارکان کو کیسے نظرانداز کیاجاسکتاہے ،اپوزیشن ذاتی مفادات کے حصول کیلئے لوگوں کو گمرہ کرنے کی کوشش میں ہے۔
ناراض ارکان سے بات چیت کا راستہ کھلا ہے کوشش ہے ناراض ارکان اور اتحادیوں کو کوساتھ لیکر صوبے کی ترقی وخوشحالی کا سفر جاری رکھ سکوں،وزیراعلیٰ ہائوس ہر کسی کیلئے کھلا رکھنا درست نہیں ہے ملاقات کیلئے مقررہ وقت پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
جام کمال خان نے کہاکہ وفاقی حکومت ہو یاصوبائی حکومت تین سالوں کے دوران بہت سے اتار چڑھا دیکھے ہیں تاہم بطور وزیراعلی بلوچستان سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کررہا ہوں ایک دو لوگ ایسے ضرور ہو سکتے ہیں جنہیں کوئی شکوہ یا شکایت ہوانھوں نے کہا کہ ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ نواب اسلم رئیسانی اور میرے والدجام یوسف کے دور حکومت کی طرح 40لوگوں کو وزیربنادیا جائے اٹھارویں ترمیم کے بعد وزراء کی تعداد محدود رکھنا ضروری ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ انفرادی طورپر کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہ کروںبلکہ اتحادیوں اور پارٹی کے تمام ارکان کی متفقہ رائے اور خیالات کا بھی احترام کروں وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس کے دوران کئی بار مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں اکثر اوقات تو بات لڑائی جھگڑے تک بھی آپہنچتی ہے۔
مگر اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے اور اتحادیوں کے درمیان اختلافات ہیں اپوزیشن جان بوجھ کر ان معاملات کو ہوا دیتی ہے تاکہ اختلافات جنم لے سکیں انھوں نے کہا کہ ہمارے تمام تر اتحادی جس میں عوامی نیشنل پارٹی،پاکستان تحریک انصاف، جمہوری وطن پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اوردیگر ہمارے ساتھ ہیں بحیثیت وزیراعلی میں نے ملاقات اور دفتر معاملات کے لئے وقت مقرر کیا ہے جس کے تحت صبح دس بجے سے دو بجے تک دفتری امور نمٹائے جاتے ہیں جبکہ چار بجے سے رات دس بجے تک سیاسی رہنماں وزرااور اتحادیوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں جس میں انہیں درپیش مسائل پر بات چیت ہوتی ہے ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ وزیراعلی ہاس ہر وقت لوگوں کے لئے کھلا رکھا جائے بجٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہم نے بجٹ میں تمام حلقوں اور اضلاع کے لئے یکساں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
جس میں اپوزیشن جماعتوں کے حلقے بھی شامل ہیں اگر ہم اپوزیشن کے حلقوں کو یکساں منصوبے دے رہے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو ترقیاتی منصوبوں سے دور رکھیں بجٹ سے متعلق اگر لوگوں کے تحفظات تھے تو انہیں منظور ہی نہ کیا جاتا بجٹ منظوری اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ سب کو انکی خواہش سے کہیں زیادہ ترقیاتی منصوبے ملے ہیں انھوں نے کہا کہ حیرت ہوتی ہے کہ ناراض اراکین میں بیشتر ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی محکمے کے وزیرہیں ۔
کیونکہ اگر کوئی ایک یا دو ایم پی اے مجھ سے اختلاف رکھتے یا ناراضگی کااظہار کرتے تو سمجھ سکتا تھا مگر صوبائی وزراہوتے ہوئے بھلا ایسا کون سے اختلاف ہے جسے دور نہیں کیاجاسکتا میری کوشش ہے کہ جس طرح سے ہم نے تین سال کے دوران معاملات کو افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے حل کیا ہے آئندہ بھی اسی طرح معاملات سلجھائیں انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگی کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ وطیرہ ہے کہ انھوں نے ہر مثبت کام کی مخالفت کی ہے اور محض ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر سیاست کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے بات چیت کا راستہ کبھی ختم نہیں کیا اب بھی میری کوشش ہے کہ بات چیت کے ذریعے ناراض اراکین سمیت اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر صوبے کی ترقی و خوشحالی کا سفر جاری رکھوں۔