کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے کیسکو سے متعلق حاجی اسلام بلوچ کی تحریک التواء نمٹادی ۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حاجی اسلام بلوچ کے تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سید لیاقت آغا نے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے واپڈا نے بلوچستان کو آج تک پوری بجلی نہیں دی ہے کیسکو چیف نے وزیراعلیٰ کے سامنے یقین دہانیوں کے بعد اب زمینداروں کو 8 گھنٹے بجلی دینے سے انکار کردیا ہے میرے حلقے میں رات کو صرف 3 گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے میں نے کیسکو حکام سے کہا ہے کہ کم از کم یہ بجلی دن کو دی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے 2013-14 کے بجٹ سے بجلی کی فراہمی کے لئے فنڈز دیئے مگر آج تک کام نہیں ہوا ۔ کیسکو بازار سے ہمیں کئی گناء زیادہ قیمت پر ٹرانسفارمر ، کمبے اور دیگر چیزیں فراہم کرتا ہے پیسے لینے کے باوجود کام نہیں کیا جارہا ۔ دوسری جانب بجلی کی شارٹ فال کا مسئلہ بدستور موجود ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں فوری طور پر کیسکو حکام سے بات کرکے بجلی کے منصوبے مکمل کئے جائیں ، زمینداروں اور گھریلو صارفین کو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ نصراللہ زیرے نے کہاکہ ہم نے زمینداروں کو 8 گھنٹے بجلی کی فراہمی کے لئے 8 ارب روپے کی سبسڈی دی ہمارا صوبہ 18 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے مگر ہمارے پاس جو ٹرانسمیشن لائنیں ہیں ان میں بمشکل 5 سو میگاواٹ بجلی آسکتی ہے ہمیں ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر بنانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 2013-14 کے بجٹ میں بجلی کے منصوبے کے لئے فنڈز دیئے جبکہ 2014-15 کے لئے بھی فنڈز دیئے ہیں مگر ڈیڑھ سال سے صرف تسلیاں دی جارہی ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ تمام منصوبے مکمل کئے جائیں ۔ پرنس احمد علی نے کہا کہ لسبیلہ میں کیسکو کے ساتھ کے الیکٹرک بھی ہے ہمارے منصوبے مکمل نہیں کئے جارہے بجلی کی لوڈشیڈنگ طویل ہے لوڈشیڈنگ کے ساتھ بجلی کی وولٹیج کا مسئلہ ہے یہ حساس مسئلہ ہے اس کو دیکھا جائے ۔ حاجی اسلام بلوچ نے کہاکہ 2 سال پہلے فنڈز دینے کے باوجود میرے حلقے میں بجلی کے منصوبے پورے نہیں کئے جارہے مکران ڈویژن میں بجلی ایران سے آتی ہے اور وہاں پر شارٹ فال کا کوئی مسئلہ نہیں اس کے باوجود شدید گرمی میں 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ہم نے بارہاں نشاندہی کی کہ ٹرانسفارمر اور تاریں بازار میں فروخت ہوتی ہیں مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا ۔ عاصم کرد گیلو نے کہا کہ ہم گز شتہ اسمبلی میں بھی بجلی کے مسئلے پر آواز بلند کرتے رہے وعدے کے باوجود 8 کی بجائے زمینداروں کو صرف 2 گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے ہماری ضروریات 17 سو میگاواٹ ہیں مگر صرف 5 سو میگاواٹ بجلی دی جارہی ہے ایران سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی کا مسئلہ بدستور حل نہیں ہوسکا ۔ ایران سے بجلی کی حصول کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیر آباد میں شدید گرمی میں طویل لوڈشیڈنگ ہورہی ہے یہ سلسلہ بند کرایا جائے ۔ یاسمین لہڑی نے کہا کہ بجلی کے حوالے سے صوبائی حکومت کے محکموں میں کوآرڈنیشن ہونی چاہیے ۔ رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ اہم مسئلہ بجلی کی منصوبوں کی عدم تکمیل اور ٹرانسفارمر اور کھمبے فراہم نہ کرنا ہے صوبائی حکومت اس سلسلے میں اقدامات کریں اس موقع پر وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایوان کو یقین دلایا کہ میں آج اسلام آبادجارہا ہوں وہاں پر متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں بات ہوگی منصوبوں کے عدم تکمیل کے حوالے سے انکوائری کمیٹی بن چکی ہے اگر نہیں بنی ہے تو جلد بنا کر ارکان کی شکایت دور کردیں گے ۔ وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر ڈپٹی اسپیکر نے تحریک التواء نمٹادی ۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی نے صوبے کے متعدد بین الاقوامی اور بین الصوبائی شاہراہوں کو این ایچ اے کے حوالے کرنے سے متعلق قرار داد ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظوری دیدی ۔ قرار داد پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی عارفہ صدیق نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اس کا مغربی بارڈر افغانستان سے ملتا ہے اور یہاں سے مختلف شاہراہیں افغانستان کے راستے سینٹرل ایشیاء اور دیگر ممالک کی طرف جاتی ہیں بین الاقوامی اور بین الصوبائی شاہراہوں کی تعمیر ودیکھ بھال نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے جبکہ صوبے کی بہت سی بین الاقوامی اور بین الاصوبائی شاہراہیں ابھی تک این ایچ اے نے اپنی تحویل میں نہیں لی ہیں ۔ یہ ایوان وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور درج ذیل بین الاقوامی اور بین الصوبائی شاہراہوں کو این ایچ اے کی تحویل میں دے تاکہ وہ ان کی تعمیر ومرمت و دیکھ بھال کو ممکن بناسکے جن شاہراہوں کو این ایچ اے کی تحویل میں دینے کی سفارش کی گئی ان میں ژوب این 50 تا قمر الدین کاریز افغان بارڈر ، مسلم باغ این 50 تا بادینی افغان بارڈر ، ریلوے اسٹیشن مسلم باغ این 50 تا لورالائی ، این 70 ہرنائی شہر تا این 70 لورالائی شامل ہیں ۔ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ اگر ان شاہراہوں کو این ایچ اے اپنی تحویل میں لے کر تعمیر کرے گا تو اس سے علاقے کی عوام کو بڑی ترقی ملے گی ۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا سب سے زیادہ تجارت ہورہا ہے افغانستان واحد ملک ہے جن کے ساتھ ہم پیشوں کے ساتھ ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت بھی کررہے ہیں ۔ انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ ہمیں این ایچ اے کو تمام روڈ نہیں دینے چاہیے ، سی اینڈ ڈبلیو اور بی اینڈ آر کے ذریعے معیاری سڑکیں بنائی جائیں اس معاملے کو کابینہ میں بحث کے بعد این ایچ اے والوں کے ساتھ رابطہ کیا جائے ایسا نہ ہو کہ ہم قرار داد پاس کریں لیکن این ایچ اے والے ان شاہراہوں کو اپنی تحویل میں نہ لے تو پھر ہماری قرار داد کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی ۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بادینی اور قمر الدینی کاریز سے افغانستان جانے والی بین الاقوامی اہمیت کی شاہراہیں ہیں جو سینٹرل ایشیاء سے ملتی ہیں میری تجویز ہے کہ میر علی خیل ژوب تا ٹانک روڈ کو بھی این ایچ اے کے حوالے کیا جائے ۔ سپرہ راغہ روڈ جو اس وقت صوبائی حکومت بنارہی ہے کو بھی این ایچ اے کے حوالے کیا جائے ۔ خالد لانگو نے کہا کہ این 40 کوئٹہ نوشکی جو خالق آباد سے ہوتا ہواکوئٹہ کراچی شاہراہ سے ملتی ہے اس پر سنگ مرمر کے بھاری پتھروں کو کراچی لے جایا جارہا ہے این 40 کو اگر این 95 سے منسلک کیا جائے تو 60 کلو میٹر کا فاصلہ کم ہوجائے گا اسی طرح این 25 جو خالق آباد سے بی بی نانی کو جاتا ہے اس کو بھی این ایچ اے کے حوالے کیا جائے ۔ قلات سے خالق آباد تا سبی تک 85 کلو میٹر تک کا فاصلہ کم ہوجائے گا ۔ حبیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ ماشکیل کا راستہ آر سی ڈی ہائی وے جو 80 کلو میٹر پر مشتمل ہے صوبائی حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اس روڈ کو تعمیر کرسکے اس روڈ کو بھی این ایچ اے کے حوالے کرکے تعمیر کیا جائے کیونکہ بارڈر سے ہمیں بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوتی ہے لہذا اس شاہراہ کو بارڈر تک این ایچ اے کو دیا جائے ۔ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ ہم صوبے میں چھوٹی چھوٹی سڑکوں کی تعمیر تو کرتے ہیں لیکن بڑی سڑکیں این ایچ اے کی ذمہ داریوں میں آتا ہے ہمیں این ایچ اے میں اپنے صوبے کا حصہ مانگنا چاہیے اگر این ایچ اے ہماری ان سڑکوں کی تعمیر کرے گا تو صوبے کی بجٹ پر بھی بوجھ کم ہوجائے گا ۔ نصراللہ زیرے نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں ہائی وے ، سپر ہائی وے اور موٹر وے موجود ہیں بلوچستان میں واحد کوئٹہ کراچی شاہراہ ہے جس کی چوڑائی 24 فٹ ہے دوسری جانب موٹروے کی ایک طرف کی چوڑائی 40 فٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کو چاہیے کہ وہ ہماری تمام بڑی سڑکوں کو تحویل میں لے کر ان کی تعمیر کو یقینی بنائے ۔ انہوں نے کہاکہ این ایچ اے کے پاس ہمارے پورے صوبے کے بجٹ سے زیادہ پیسے ہیں بلوچستان کا کل بجٹ 45 ارب جبکہ پنڈی اسلام آباد میٹرو سروس 55 ارب روپے میں بن رہی ہے ۔ حاجی اسلام نے کہا کہ پنجاب رتوڈیرو روڈ جو گوادر سے نکل کر تربت ، خوشاب اور پنجگور کی جانب آتا ہے پنجگور سے ایرانی بارڈر صرف 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے اس وقت بلوچستان میں پنجگور ایران بارڈر سب سے زیادہ ریونیو دے رہا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دو گھنٹے کا راستہ 8 گھنٹے میں طے ہوتا ہے لہذا این ایچ اے اس 2 گھنٹے کی مسافت پر مشتمل روڈ کو بنائے ۔ حسن بانو رخشانی نے کہا کہ دالبندین سے چاغی بمشکل 45 منٹ کا راستہ ہے مگر سڑک خراب ہونے کی وجہ سے 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں اس کی تعمیر کو شامل کیا جائے ۔ شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اس قرار داد کی حمایت کرتے ہیں سڑکوں کی تعمیر اہمیت کا حامل معاملہ ہے عبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ گوادر کاشغر روڈ تعمیر ہورہی ہے اس میں این 17 کو بھی شامل کیا جائے دوسری طرف تفتان روڈ بھی عالمی شاہراہ ہے اس کو مکمل کیا جائے بعد ازاں قرار داد ارکان کی ترامیم کے ساتھ منظور کرلی گئی ۔