ملک بھر کے بڑے شہروں میں ترقی کے جال بچھائے جارہے ہیںَ آبادی کے پیش نظر سڑکیں، پُل، انڈرپاسز، ٹرانسپورٹ، پانی، سیورج، اسپتال، تعلیمی اداروں پر کام کیاجارہا ہے ۔یہ ایک اچھا اور احسن اقدام ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں جدید سہولیات مہیا کرنا اور عوام کو بنیادی مسائل سے چھٹکارا دلاکر ان کی معمولات زندگی کو آسان بنایاجائے۔
بلوچستان کے متعلق ہر وقت یہی بات دہرائی جاتی ہے کہ اس وقت بلوچستان میں پانی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے پانی نہ ہونے کی وجہ سے عوام مسائل سے دوچار ہیں ،ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں ، زراعت کا شعبہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے ،زمیندار آئے روز احتجاج کرتے ہیں۔بلوچستان کے گرین بیلٹ کی صورتحال بھی خطرناک ہے ، گوادر جیسے اہم شہر میں جو سی پیک کا محور ہے وہاںبھی پانی دستیاب نہیں ہے۔ پانی کے متعلق جب بھی حکمرانوں سے بات کی جاتی ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ پانی کے اہم منصوبوںپر کام جاری ہے ،دہائیاں گزر گئے مگر پانی کے منصوبے آج تک پایہ تکمیل تک نہیںپہنچے ۔ شاہراہوں کی مثال کراچی تا کوئٹہ واضح ہے کہ روزانہ کی بنیاد پریہاں حادثات ہوتے ہیں۔
بارہا اس جانب توجہ مبذو ل کرائی گئی اور بلوچستان کے باسیوں نے بڑے پیمانے پر اس حوالے سے اپنا احتجاج بھی ریکارڈکرایا مگر قومی شاہراہ کراچی تاکوئٹہ کا منصوبہ کہاں تک پہنچا ہے اور اس پر اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے ،کاغذی کارروائی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے بڑے شہروں میں سڑکیں خستہ حالت میں ہیں، پُل اور انڈرپاسز کا توسوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ٹرانسپورٹ کا یہ عالم ہے کہ لوکل ٹرانسپورٹ کی روٹ پر چلنے والی تمام بسیں خستہ حالت میں ہیں، سرکاری سطح پر گرین بس سروس کوئٹہ کا اعلان آج کئی برس گزرجانے کے باوجود یہ منصوبہ زمین پر دکھائی نہیں دے رہا ۔ سرکاری فائلوں تک ہی یہ منصوبہ موجود ہے۔
سیوریج کا بھی یہی عالم ہے کہ شہروں میں سیوریج کا نظام سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ اسپتالوں کی حالت میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی اورتعلیمی اداروں کے اندر بھی کوئی بڑاانقلابی کام دکھائی نہیں دے رہا۔ تعلیم اور صحت کے لیے خطیر رقم بجٹ میں مختص کرنے کے باوجود یہ دونوں شعبے کارکردگی دکھانے میںمکمل طور پر ناکام ہیں۔ بلوچستان کے عوام کا شکوہ یہی ہے کہ انہیں ہروقت نظرانداز کیاجاتا ہے کوئی توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ بلوچستان کے معدنی وسائل سے وفاق بڑے پیمانے پر منافع کمارہاہے مگر بلوچستان کے مسائل پر کوئی خاص توجہ کسی دور حکومت میں نہیں دی گئی۔ دوسری جانب کراچی جو پاکستان کی معیشت کا شہ رگ ہے اور بڑے پیمانے پر ریونیو دیتا ہے یقینا کراچی کے باسیوں کا حق بنتا ہے کہ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ ٹرانسپورٹ اور پانی کراچی کے بڑے مسائل ہیں، کراچی کی ترقی کے لیے ،آگے بڑھنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر چلنا ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج بڑا دن ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی 70ء کی دہائی میں کیا تھا۔بدقسمتی سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جو نظام ہوناچاہئے تھا، وہ نہیں بنا۔کراچی میں پانی دوسرا بڑا مسئلہ ہے،گزشتہ سال کراچی ٹرانسفارمیشن پلان بنایا، یہ معیشت کے حوالے سے اہم شہر ہے۔ اس کی اہمیت کا پوری طرح اندازہ نہیں لگایا گیا۔کراچی میں انتشار کے بعد اس کی ترقی تیزی سے گرنا شروع ہو گئی۔ہمیں سندھ کی ترقی کے لیے آگے بڑھنا اور ساتھ چلنا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی پھیلتاجارہا ہے جس کے باعث مسائل بڑھ گئے ہیں،لاہور بھی پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے شہروں پر دباؤ بڑھ جاتاہے اور وسائل کم ہوجاتے ہیں۔کراچی کے مسائل بروقت حل نہ کیے گئے تو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا،کراچی کی ترقی کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔
ٹرانسپورٹ کی سہولت بنیادی انفرا اسٹرکچر کا اہم جز ہے،کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں کے لیے منصوبہ بندی کرناہوگی۔کراچی کے مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت پُرعزم ہے ،امید ہے سندھ حکومت بھی کراچی کے لیے بھرپور کام کر ے گی۔امید ہے کہ ملک کے بڑے شہروں کی طرح بلوچستان کے اہم شہروں کو بھی ترجیح دی جائے گی ماضی کی طرح نظرانداز نہیں کیاجائے گاجن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے صوبائی حکومت ان معاملات کو وفاق کے سامنے اٹھائے اور وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے اپنا عملی کردار ادا کرے ۔وعدے وعید سے آگے بڑھنا ہوگا ، بلوچستان کے عوام ترقی چاہتے ہیں ،اپنے لیے سہولیات کامطالبہ کرتے ہیں ،دہائیوں سے سراپااحتجاج پسماندہ ومحروم صوبے کے عوام کی بھی داد رسی ضروری ہے۔