ملک میں مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان متعدد بارکہہ چکے ہیںکہ جب تک نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی نہیں ہوگی مسائل کے حل اور ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے ۔ وزیراعظم عمران خان متعدد بارمختلف تقاریب میں اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں بلدیاتی انتخابات کرانا اور مقامی حکومتوںکو بااختیار بناکر عوامی مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنا ہے مگر اس حوالے سے اب تک کوئی خاص پیشرفت نہیںہوئی ہے البتہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس بات کا کھل کر اظہار کیاہے کہ مقامی حکومتوں کی تشکیل میں اصل رکاوٹیں کون ہیں اور حکومت کی منصوبہ بندی لوکل انتخابات کے حوالے سے کیا تھی۔وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کاکہناتھا کہ لوکل الیکشن پہلے سال نہ کرانا حکومت کی غلطی تھی۔وزیراعظم مضبوط لوکل حکومت پر یقین رکھتے ہیں۔
دنیا بھرمیں بہترین نظام لوکل گورنمنٹ کا ہے۔مطلق العنان بادشاہت سے جمہوریت کی جانب سفر درجہ بدرجہ طے پایا۔ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات مرکز سے صوبو ں کودیئے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کوئی ایم پی اے، ایم این اے فنڈز لوکل گونمنٹ کونہیں دیتے۔ لوکل حکومتوں کی سب سے بڑی مخالفت وزرائے اعلیٰ کی جانب سے آرہی ہے۔وزیر کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے صوبے کا تمام بجٹ لاہور پر خرچ کیا۔ آرٹیکل 148 کا نفاذ نہ ہونا سب سے بڑامسئلہ ہے۔فوادچودھری نے کہا کہ کراچی میں سندھ حکومت ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کررہی۔ کراچی میں بیٹھ کرایک شخص کیسے اسلام آباد کے مسئلے کو سمجھ سکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر کوئی شخص کراچی کے مسائل کونہیں جان سکتا۔ مقامی مسائل کوسمجھنے کے لیے مقامی نمائندوں کا ہونالازمی ہے۔
وفاقی وزیرفواد چودھری کے اس بات سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا کہ انہوںنے بالکل بجا فرمایا ہے کہ مقامی نمائندگان ہی اپنے علاقے اور عوام کے مسائل کو صحیح معنوں میں جانتے ہیں اور انہیں فوری حل بھی مقامی نمائندگان ہی کرسکتے ہیں ،کوسوںدور بیٹھے سیاسی شخصیات دیگر حلقوں اور علاقوں کے مسائل سے واقفیت نہیں رکھتے۔ بلوچستان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ مقامی حکومتیںنہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں منتشر آبادی پر پھیلا بلوچستان میں صحت، تعلیم، پانی، سیوریج جیسے بنیادی مسائل آج بھی موجود ہیں مگر بدقسمتی سے جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اور مقامی حکومتوں کی تشکیل عمل میںلائی گئی تو ایم پی ایز اور ایم این ایز نے مقامی نمائندگان پر اپنا دباؤ برقرار رکھا اور انہیں کبھی بھی فنڈز صحیح معنوں میں صو بائی حکومت کی جانب سے فراہم نہیں کئے گئے بلکہ مقامی ایم پی ایز اور ایم این ایز کے حصے میںہی فنڈز آئے اور کبھی بھی ایم پی ایز اور ایم این ایز یہ نہیں چاہتے کہ مقامی حکومتیں بااختیار ہوں اور براہ راست فنڈز انہیں ملیں ،اس لئے ان کے معاملات میں رکاوٹیں اور مداخلت کی جاتی ہے
جس کا شکوہ ماضی کے مقامی نمائندگان خود کرتے آئے ہیںکہ شہری ودیہی علاقوں کے مسائل حل کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو انہیں فنڈز سے محروم سے رکھا گیا یا پھر اپنا اثر ونفوذ استعمال کرتے ہوئے ان کے اختیارات میں مداخلت کی گئی جس کی وجہ سے بلوچستان میں وہ بہتر انداز میںکام نہیں کرسکے۔ اس سے بڑاالمیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دوران بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے میئر اور ڈپٹی میئر کا تعلق حکومتی جماعت سے تھا مگر پارٹی کے مرکزی قائدین اور بااثر شخصیات نے انہیںکام کرنے نہیں دیا لہٰذا اس روش کو ختم کرنے کیلئے موجودہ حکومت جلدازجلد بلدیاتی انتخابات کرائے اور مقامی حکومتوں کو ہی فنڈز براہ راست دیئے جائیں، انہیںکلی طور پر بااختیار بنائیںاور ان کے معاملات میں کسی طرح کی مداخلت پر سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مقامی نمائندگان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ملک کے تمام پسماندہ ترین علاقے جو مسائل سے دوچار ہیں ان کی ترقی یقینی ہوسکے۔