|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمران ریکوڈک کا سودا کر چکے ہیں اب بریفننگ، بیانات ، تقاریر سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے متوقع مردم شماری چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں ہرگز قبول نہیں افغان مہاجرین بلوچستان کی معیشت مذہبی جنونیت ، فرقہ واریت ، طالبانائزیشن میں کلیدی کردار ادا کیا اس سے کسی بھی صورت انکار ممکن نہیں بلوچستان کا ہر طبقہ فکر اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے بلوچستان میں انتہاء پسندی فروغ پا چکی ہے لیکن بلوچستان حکومت کے ارباب اختیار آج جس طریقے سے افغان مہاجرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے نادرا آفس اور سینیٹروں سے ایماندار افسران کو اس لئے اہم عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہے تاکہ غیر بلوچ اور پارٹی جیالوں کے ذریعے افغان مہاجرین کے جعلی غیر قانونی دباؤ ، پیسوں کے بل بوتے پر جو شناختی کارڈ کا اجراء کیا گیا ہے اسے مزید دوام دیتے ہوئے بلاک شدہ شناختی کارڈز کو جاری کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکی و بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ایسی کوئی قانونی گنجائش نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد رہنے دیا جائے جس طرح خیبرپختونخواء ، پنجاب ، سندھ و مرکزی حکومت نے افغان مہاجرین کے حوالے سے واضح طور پر انخلاء کے حوالے سے پالیسیاں اپناتے ہوئے کہا کہ ان کی یہاں موجودگی اب غیر قانونی ہو چکی ہے لیکن بلوچستان حکومت آج تک افغان مہاجرین کے بارے میں نہیں دے سکی ہے بلکہ یہاں کے یہاں افغان مہاجرین کی آبار کاری کیلئے سرکاری مشینری کو استعمال کر رہے ہیں اور بلوچستان کے ارباب و اختیار ، اراکین اسمبلی کی جانب سے نادرا کے دفاتر اور سینیٹروں میں سرکاری گواہوں کے ذریعے نادرا ملازمین پر دباؤ ڈال رہے ہیں جو کسی بھی صورت قانونی نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اب کوئٹہ سمیت جتنے بھی ڈپٹی کمشنرز ہیں صوبائی حکومت کی ایماء پر افغان مہاجرین کے شناختی کارڈز ، لوکل اور بلاک شدہ کارڈز کے اجراء کیلئے غیر قانونی اقدامات کر رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این پی ایک ترقی پسند ، روشن خیال ، قوم دوست ، وطن دوست سیاسی قوت ہے جو شاؤنزم ، تنگ نظری اور تعصب کی بنیاد پرسیاست نہیں کرتی لیکن ہم کسی بھی صورت میں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں مزید برداشت نہیں کریں گے کیونکہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین بلوچ ، پشتون یہاں کے تمام بلوچستانیوں کیلئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں پارٹی یہ کہتی آ رہی ہے کہ افغان مہاجرین چاہے بلوچ ہوں ، پشتون ہوں یا کسی بھی فرقہ ، قوم سے تعلق رکھتا ہے اسے سرکاری دستاویزات بنانے ، معاشی منڈیوں تک رسائی کی کوئی اجازت نہیں دی جا سکتی بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت واضح کرے کہ وہ افغان مہاجرین کے متعلق ان کی کیا پالیسی ہے حکمران جماعت و اتحادی سرکاری مشینری کو شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے تگ و دو کر رہی ہے جو بند کیا جائے نادرا کے اعلی حکام اور وزارت داخلہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے شناختی کارڈز کی منسوخ عمل میں لائے تحقیقاتی کمیٹیوں کے ذریعے ان کی جانچ پڑتال کی جائے اور 1979ء سے قبل کے بھی شناختی کارڈز کی بھی تصدیق کی جائے کیونکہ افغان مہاجرین بڑی مہارت کے ساتھ مقامی پشتون ، بلوچوں کے خاندانوں کی فہرستوں میں اپنے ناموں کا اندراج کر رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر ڈپٹی کمشنرز سے اختیارات لے کر تصدیقی کمیٹیوں کے ذریعے قواعد و ضوابط کے تحت شناختی کارڈز کے اجراء عمل میں لایا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری بلوچستان میں قابل قبول نہیں دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر موسیٖ خیل اور ضلعی انتظامیہ کے دیگر افسران بلوچ دشمنی پر مبنی اقدامات کر رہے ہیں مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے بلوچ ملازمین کو حراساں ، تنخواہوں کی بندش اور ذہنی کوفت سے دوچار کیا جا رہا ہے یہ تمام چیزیں حکومتی ایماء پر کی جا رہی ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ موسیٖ خیل میں 60فیصد آبادی بلوچ ہے انہیں کسی بھی صورت میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا فوری طور پر ڈپٹی کمشنر ملازمین کے خلاف کارروائی بند کریں اور بلوچ ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک ترک کریں –