کوئٹہ: جام کمال بدستور وزیر اعلی رہینگے۔ صوبائی کابینہ سے کچھ وزیروں کو ہٹایا جا سکتا ہے ۔ وزارتوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا عندیہ ،ذرائع سینٹ چیئر مین اور پی ٹی آئی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اہم منصب پر فائز شخصیت وزیر اعلی جام میر کمال خان کے وزارت اعلی کے منصب پر قائم رہنے اور باپ پارٹی کے ناراض ارکان کو وزارتوں کی پیش کش کرکے صوبائی حکومت کا سیٹ اپ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائینگے۔
ذرائع کے مطابق کہ چیئرمین سینٹ اور جام کے درمیان کچھ نکات پر اتفاق ہو سکتا ہے اس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا بھی معاونت حاصل رہنے کا امکان ہے جس سے ناراض ارکان کو منایا جاسکے گا تاہم ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ موجودہ کابینہ کے کس وزیر اور مشیر کو ہٹایا جا سکتا ہے اور نئی کابینہ کی شکل کیا ہوگی۔
جہاں تک سیاسی اتحادیوں سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے کن کن وزارتوں کو اپنے پاس رکھے گا یہی وہ فائنل آپشن اور حل ثابت ہو سکتی ہے کہ جس سے وزیر اعلی جام کی وزارت اعلی بچ سکتی ہے تاہم اس اہم آپشن کو کھل کر تاحال میڈیا کے سامنے نہیں لایا جا رہا۔دریں اثناء بلوچستان عوامی پارٹی کی کور کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بی اے پی کے بانی سعید احمد ہاشمی کی صدارت میں منعقد ہوا اجلاس میں کور کمیٹی کے ارکان صوبائی وزیر نوبزادہ طارق مگسی، رکن صوبائی اسمبلی سردار محمد صالح بھوتانی ،بی اے پی کے چیف آرگنائزر رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی نے شرکت کی ۔
کور کمیٹی نے پارٹی صدر جام کمال خان کے استعفے سے پیداہونے والی صوبے کی سیاسی اور پارٹی کی تنظیمی صورتحال پر غور کیا اور جام کمال کی پارٹی صدارت سے استعفیٰ کی توثیق کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیاکہ آئندہ چند روز میں پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے پارٹی کے مرکزی اور صوبائی تنظیمی انتخابات کیے لئے مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس کی حتمی تاریخ کا فیصلہ کیا جائے تاکہ پارٹی کی نئی کابینہ بلوچستان عوامی پارٹی کی سوچ اور وژن کے تسلسل کو قائم رکھے۔
اجلاس میں گذشتہ چند روز سے بی اے پی کے پارلیمانی گروپ کی باہمی ناراضگی سے صوبے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور پارٹی کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی پر انتہائی تشویش کااظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کے پارلیمانی اراکین کے ساتھ فوری طور پر باہمی مشاورت کے ساتھ پارٹی اور صوبے میں پیدا ہونے والے بحران کا ایسا مستقل اور دائمی حل نکالا جائے جسکے مثبت اثرات نہ صرف بلوچستان بلکہ ملکی سیاست پر مرتب ہوں ۔