گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے پارٹی صدارت سے مستعفی ہوکر یہ بات واضح کردی کہ پارٹی کے اندر بہت سے سینئر ارکان انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ پارٹی عہدے سے الگ ہونے کا براہ راست تعلق وزارت اعلیٰ کے معاملے سے جڑا ہوا ہے اب تک پارٹی کے اندرون خانہ معاملات زیادہ واضح نہیں تھے حالیہ فیصلے نے تمام معاملات کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی عمر تین برس ہے اور یہ جماعت مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل شخصیات نے تشکیل دی تھی جس میں بعض سینئر ارکان بھی شامل ہیں جو بلوچستان کے سیاسی ماحول کے مطابق اپنے کارڈز کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں کہ کب کس وقت انہیں اپنے کارڈز شو کرنے ہیں ۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں اختیارات اور انتظامی امور کی آڑ میں سیاستدانوں نے ہر وقت اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کا تعلق بلوچستان سے تو کجا اپنے حلقے تک نہیں ہے ،کوئی ایک مثال ناراض ارکان کی جانب سے دی جائے کہ انہوں نے اپنے حلقے میں کتنے بڑے عوامی نوعیت کے منصوبے بنائے جن سے ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ استفادہ کررہے ہیں۔ دہائیوں سے یہ چہرے بلوچستان کے اقتدار پر براجمان ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے کبھی اپنے ایک یونین کونسل پر بھی رقم خرچ نہیں کی بلکہ بلوچستان کی اسمبلی اور وزارت کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جہاں سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے ذاتی خواہشات کو پورا کیاجاسکے ۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بعض ارکان تو سالہاسال اپنے حلقے میں جاتے ہی نہیں چند ایک روز گزار کر ان کا بیشتر وقت بلوچستان سے بھی باہر گزرتا ہے ۔چونکہ بعض سیاسی شخصیات کو اپنی طاقت اور زورآوری کی وجہ سے ووٹ ملتا ہے اور چند شخصیات کی پشت بہت مضبوط ہوتی ہے جنہیں کسی بڑے الیکشن مہم کی ضرورت نہیںہوتی اور نہ ہی عوامی اجتماعات کے لیے خود کو زیادہ مصروف رکھنے کی خاص دلچسپی ہوتی ہے انہیں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کس رخ جانا ہے اسی پر ان کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ بہرحال مفادات کی سیاست نے بلوچستان کومحرومی وپسماندگی کی طرف دھکیل تودیا ہے مگر ساتھ ہی مستقبل میں بلوچستان کو سیاسی حوالے سے مکمل طور پر مفلوج اور بانجھ کرنے کی طرف بھی راغب کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہوجائیں تب بھی بلوچستان کے مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اس کا مکمل فائدہ عدم اعتماد کی تحریک لانے والے ارکان اسمبلی کو ہی ملے گا اور ان کے تمام نازونخروںکے ساتھ ہر فرمائش وخواہش پوری کی جائے گی۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ بلوچستان کی اپوزیشن بھی اس کشتی کی سواری کا حصہ بن چکی ہے جو اقتدار میں شراکت دار تو نہیں بنے گی مگر اپنے ووٹ کی قیمت سود سمیت وصول کرے گی ۔
گویا بلوچستان میں اب سب حکومت میںہیں کوئی اپوزیشن نہیں ۔افسوس کا عالم ہے کہ نظریاتی سیاست کالیکچردینے والے جب مفادپرست ٹولے کے ساتھ یکجا ہوجائیں تو اس خطے میں سیاسی بحران کا پیدا ہونا یقینی ہے ۔ بہرحال بلوچستان میں بڑی تبدیلی کا بارہا ذکر کیاجاتارہا ہے مگر ذی شعور افراد اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے چونکہ ماضی کی سیاسی تاریخ سامنے ہے کہ کس طرح سے سیاسی شخصیات چند لمحوں میں ایک اشارے پر اپنی وفاداریاںتبدیل کرتے ہیں اور اسے ایک نئی اصطلاح ’’ناراضگی‘‘ کے ساتھ جوڑ دیاجاتا ہے ۔البتہ جوکچھ بلوچستان کے سیاستدان کررہے ہیں اس کا مکافات عمل بھی اسی طرح ہوگا ۔