|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2021

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے اب تک 100 سے زائد موسیقی کے طلبا اور اساتذہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغانستان میں موسیقی کے انسٹی ٹیوٹ کے سربراہوں اور پرنسپل نے تصدیق کی کہ 100 سے زائد موسیقی کے طلبا اور اساتذہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔میلبورن میں رہنے والے افغانستان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے بانی احمدسرمست نے بتایا کہ ملک میں نئی طالبان اتنظامیہ کی جانب سے موسیقی پر کریک ڈاؤن کے خوف سے افغانستان کے اعلیٰ میوزیکل انسٹی ٹیوٹ کے مجموعی طور پر 101 اراکین پیر کی شام دوحہ پہنچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گروپ میں نصف خواتین اور لڑکیاں شامل ہیں اور پرتگالی حکومت کے تعاون سے وہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک چھوڑنے کے آخری لمحے تک جان سولی پر تھی۔

احمدسرمست نے بتایا کہ کابل میں قطری سفارت خانے کی مدد سے موسیقاروں کو چھوٹے گروپوں میں شہر کے ہوائی اڈے تک پہنچایا گیا۔کابل ایئر پورٹ پر نگرانی کرنے والی طالبان فورسز نے ان کے ویزوں پر سوال اٹھایا لیکن قطری سفارت خانے کے حکام اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب رہے۔

پھر لڑکیوں اور عورتوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے عارضی ’سروس پاسپورٹ‘ کے ساتھ ملک سے باہر نہیں جا سکتیں کیونکہ اس طرح کے پاسپورٹ صرف عہدیداروں جاری ہوتے ہیں۔

اس کے بعد ایک مرتبہ پھر قطری حکام کی مداخلت پر معاملہ حل کرایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ چند گھنٹوں کے بعد طیارے نے پرواز کی تو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے۔

احمد سرمست نے کہا کہ ’طیارے میں موجود تمام آنکھیں نم تھیں، میں زاروقطار رو رہا تھا، میرے اہلخانہ بھی میرے ساتھ رو رہے تھے، وہ میری زندگی کا سب سے خوشی کا لمحہ تھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے طلبا کے ساتھ گزارے گئے خوشگوار لمحات کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے جنہوں نے متعدد بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے کر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ دکھایا۔

احمد سرمست نے کہا کہ جس دن سے طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا اس کے بعد سے موسیقی کاروں اور موسیقی کے خلاف امتیازی سلوک شروع ہوگیا، افغانستان کے لوگ ایک مرتبہ پھر خاموش ہوگئے۔

احمد سرمست نے بتایا کہ طالبان نے تمام میوزیکل اداروں کے اراکین کو آئندہ حکامات تک گھر میں ہی رہنے کی ہدایت کی تھی لیکن 2 ماہ انتظار کرنے کےباوجود کوئی احکامات یا معلومات فراہم نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ کابل سے نکل جانا دراصل پہلا مرحلہ تھا اور اب 184 دیگر اراکین اور طالبہ کی آمد تک جدوجہد جاری رہے گی تاکہ ایک مرتبہ پھر ہم سب ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔