|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2021

حکومت نے موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو توسیع دینے کا فیصلہ کرلیا۔اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز حکومتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نیب کی توسیع سے متعلق قانونی نکات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور کئی تجاویز پیش کی گئیں۔

وزرا ء پر مشتمل حکومتی کمیٹی نے سفارشات کا مسودہ تیار کرلیا جس میں نیب آرڈیننس میں ایک سے زائد ترامیم کی گئی ہیں۔ ترامیم مشیرپارلیمانی اموربابراعوان، وزیرقانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے تیار کی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومتی کمیٹی کی جانب سے نیب آرڈیننس کے ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد چیئرمین نیب کی ملازمت میں توسیع کیلئے صدارتی آرڈیننس آج جاری کیا جائے گا۔واضح رہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی مدت ملازمت 8 تاریخ کو ختم ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 6 (بی) کے تحت چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔ وزارت قانون نے صدارتی آرڈیننس کا ایک مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت قانون میں ترمیم کرکے نیب آرڈیننس 1999 کی شق 6 (بی) میں چیئرمین کی مدت ملازمت کو ناقابل توسیع کے بجائے قابل توسیع بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر یہ آرڈیننس جاری کر دیں تو پھر قانونی گنجائش نکل آتی ہے اور اس نئے قانون کے تحت حکومت صرف ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے مدت میں توسیع دے سکتی ہے۔یاد رہے کہ حکومت اس سال کے اوائل میں پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر کو بالکل اسی طریقے سے توسیع دے چکی ہے۔

جبکہ نیب قانون کے تحت ان کا تین سال کا دور بھی ناقابل توسیع تھا تاہم ایک آرڈیننس کے تحت اسے قابل توسیع کے لفظ سے بدل کر انہیں توسیع دے دی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن کو اس تمام معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ قانون توڑ کر چیئرمین نیب کو توسیع دی جارہی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہی مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ قانون کہتا ہے مشاورت کریں لیکن وزیراعظم انکار کررہے ہیں، صدر بھی آرڈیننس پر دستخط کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے چیئرمین نیب کی توسیع کے متعلق سپریم کورٹ جانے کا عندیہ دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے تمام تر اعتراضات اور تنقید کو رد کرتے ہوئے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی توسیع کے لیے اپوزیشن کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی جائے گی۔ بہرحال یہ روایات آج کی نہیں ہیں کہ قانون میں ترمیم کرکے اداروں کے سربراہان کی مدت میں توسیع دی جارہی ہے یہ پہلے بھی ہوچکا ہے جس پر اپوزیشن اتنا واویلا مچا رہی ہے ماضی میں انہوں نے بھی اپنے دور حکومت میں مفادات کی خاطر ایسے کارنامے سرانجام دے چکے ہیں۔ بدقسمتی یہی ہے کہ اعتراضات اٹھانے والے خود ماضی کے حوالے سے صاف ستھرے نہیں تو حکومت کیونکر ان کی بات سنے گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع سے اپوزیشن کو اس لئے پریشانی ہورہی ہے کہ دوبارہ ان کے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں کچھ اور نئے کیسز سامنے نہ آئیں تاکہ انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا جائے

،اگر ایسی یقین دہانی ایک ڈیل کے ذریعے ہوجائے تو اپوزیشن مکمل خاموشی اختیار کرے گی، کوئی بڑا طوفان برپا نہیں کرے گی ۔ چیئرمین نیب بھی اپنی مدت میں توسیع کرکے شاید کچھ بہتر کارنامے دکھانے کی کوشش میں لگے ہیں تاکہ ماضی کی کچھ غلطیوں کا ازالہ کیاجاسکے البتہ اداروں کا سیاسی مفادات کے لیے استعمال کی طویل داستان ہے، اگر پہلے کے حکمران یہ کارنامے نہ کرتے تو آج اس کی نوبت ہی نہ آتی۔