کوئٹہ: اسپیکربلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو، بی اے پی کے قائم مقام صدر رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور بلیدی، بی اے پی کے ترجمان رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے خلا ف تحریک عدم اعتماد میں اکثریت ہمار ے ساتھ ہے وزیراعلیٰ بضد ہیں کہ وہ استعفیٰ دینے کے بجائے تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اسمبلی کے اجلاس میں تمام صورتحال واضح ہوجائیگی کہ کس کے پاس اکثریت ہے ہمارے گروپ کے ارکان متحد ہیں وزیراعلیٰ کے قریبی لوگ ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں انکے لوگ ہمارے پاس آئیں گے مگر ہمارے لوگ یہیں رہیں گے ۔
یہ بات انہوں نے کوئٹہ آمد کے بعد ائیر پورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ، اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانا ارکان اسمبلی کا جمہوری حق ہے اگر وزیراعلیٰ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں لیکن وہ میڈیا کے ذریعے عوام گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 14افراد کے دستخط ہیں تو وہ کیوں نہیں آئے انہوں نے کہا کہ 2018میں جب ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی تب صر ف میں اور آغا رضا گئے اور تحریک جمع کروائی تھی تحریک جمع کرنے کے لئے ایک شخص کی ضرورت اور ایک ہی شخص اسے پیش کرسکتا ہے انہوں نے کہاکہ 20اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد آئینی تقاضے کے تحت اسمبلی میں پیش ہوگی اور وہاں تمام چیزیں واضح ہو جائیں گی انہوں نے کہاکہ ارکان کی اکثریت ہمارے اور پارٹی صدر ہمارے ساتھ ہیں تو فلو ر کراسنگ نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے استعفیٰ دے دیا اور پھر جب قائم مقام صدر کی تقرری کردی گئی تو اس کے بعد استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔
لیکن انہوں نے جو کیا وہ انکی مرضی ہے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی کوئی کہانی نہیں ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے جام کمال خان اور انکے دوست کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے لوگ توڑے ہیں پہلے بھی وزیراعلیٰ کو ایک ماہ دیا گیا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکے ہم 11سے 12ہوگئے ہیں اور تحریک عدم اعتماد جمع کروائی وزیراعلیٰ کے نزدیکی تمام لوگ ہم سے رابطے میں ہیں وہ دن جلد آئیگا جب وہاں سے یہاں آنے والے نظر آئیں گے مگر یہاں سے وہاں کوئی جانے والا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سے کہا ہے کہ وہ اسمبلی کے فلو ر پر اپنا جمہوری حق استعمال کریں ثابت ہوجائیگا کس کے پاس اکثریت ہے وزیراعظم نے اکثریت کا ساتھ دینے کا کہا ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پاس موقع نہیں ہے اگر وہ استعفیٰ دیکر پارٹی بچاتے ہیں تو انکی مہربانی اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور بلیدی نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا اور کورکمیٹی نے اسکی توثیق کی اور 10دن تک انتظار کیا کہ شاید وہ واپس لیں یا انکا کوئی بیان آجائے۔
لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا اور پھر مشاورتی کونسل نے بطور سینئر نائب صدر میرانام قائم مقام صدر کے دیا اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے الیکشن کمیشن کو میرانام بطور قائم مقام صدر دیا انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کا الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنا مضحکہ خیز ہے میرا مقصدمنصب پر براجما ن ہونا نہیں ہے پارٹی آئین کے مطابق کابینہ کی تین سالہ مدت مکمل ہوچکی ہے ہم نومبر میں الیکشن کمیشن کی مہلت کے مطابق کونسل سیشن بلا کر نئے صدر کا انتخاب کریں گے انہوں نے کہا کہ اگر جام کمال خان کو دوبارہ صدر بننا ہے تو الیکشن کمیشن میں جاکر درخواستیں دینے کی بجائے الیکشن میں حصہ لیں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کو کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ پارٹی صدارت سے استعفیٰ دیں انہوں نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا۔
انہیں دس دن کی مہلت بھی دی گئی قائم مقام کا صدر پارٹی آئین کے مطابق ہوا ہے اگر جام کما ل خان کچھ کہتے ہیں تو وہ بڑے آدمی ہیں ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر 14ارکان نے دستخط کئے کسی نے بھی اس عمل کی تردید نہیں کی جسکا مطلب ہے ہم متحد ہیں ہم نے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو باعزت طور پر جانے کے لئے مستعفی ہونے کا راستہ دیا ہے مگر وہ بضد ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کریں گے وہ انکا آئینی اور جمہوری حق ہے اسمبلی کے اجلاس میں تمام صورتحال واضح ہو جائیگی انہوں نے کہا کہ لیاقت شاہوانی ترجمان بلوچستان حکومت نہیں ترجما ن وزیراعلیٰ ہیں ہماری تحریک کا پی ڈی ایم سے کوئی تعلق نہیں وزیراعلیٰ کو اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے وزیراعلیٰ کی اپنی جماعت اور اتحادیوں نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے وزیراعلیٰ نے بھی بی این پی (مینگل)،جمعیت علماء اسلام سے رابطے کئے ہیں ہمارے بھی روابط ہیں یہ بلوچستان کی اپنی سیاست ہے رابطے چلتے رہتے ہیں اس میں کوئی نئی کی بات نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک سے ملاقات ہوئی انہوں نے بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر گفتگو کی۔
ہم نے انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بلوچستا ن عوامی پارٹی ہمارے ساتھ ہے اور پی ٹی آئی کا اتحاد بی اے پی کے ساتھ ہے کسی شخص کے ساتھ نہیں اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے مجھے پارٹی ترجمان مقرر کیا ہے لیاقت شاہوانی وزیراعلیٰ کے ذاتی ترجمان ہیں انہیں ڈیڑھ لاکھ تنخواہ ملتی ہے وزیراعلیٰ والی ریاست ہیں وہ جتنے ملازم چاہے رکھ سکتے ہیں ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے ہم کسی کے خوابوں اور خواہشات پر پابند ی نہیں لگا سکتے انہوں نے کہا کہ ہمارے گروپ کے تمام ارکان متحدہیں وزیراعلیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے پانچ چھ ایم پی اے مانگے ہیں ۔دریں اثناء بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میرظہوراحمدبلیدی نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کاوطیرہ تھاکہ نہ خود کام کرینگے نہ دوسروں کوکرنے دینگے ،7،سات گھنٹے میٹنگز کے باوجود کوئی آئوٹ فٹ نہیں تھا ،اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی ،اے این پی ،ایچ ڈی پی ،جمہوری وطن پارٹی کااتحاد فردواحد جام کمال کے ساتھ نہیں بلکہ بی اے پی کے ساتھ ہے وہ اپنی حمایت پرنظرثانی کرے ،صوبے میں خراب گورننس کی ذمہ داری جام کمال پر عائد ہوتی ہے ،اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں پر ڈنڈے برسائے جاتے تھے ،بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے لیکن جام کمال ایک منیجر بن کر بیوروکریٹک انداز میں معاملات آگے بڑھارہے تھے ۔
جس سے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگیا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ میرظہوراحمدبلیدی نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی میں65ارکان ہے جام کمال کواتحادیوں کوملا کر24ممبران کی حمایت حاصل ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے 12ارکان ناراض ہے جبکہ ناراض اتحادیوں کی تعداد3ہے کل 15ارکان ناراض ہے ،جب وزیراعلیٰ عددی اعتبار سے اکثریت کھودے توانہیں مزید منصب پر جمے رہنامشکل ہوجاتاہے جام کمال اس وقت اخلاقی جواز کھوچکے ہیں ہم نے انہیں کہاکہ آپ عددی اکثریت کھوچکے اس لئے باعزت طورپر استعفیٰ دیں لیکن انہوں نے ہماری بات ہوا میں اڑا دی جب حکومت کے خلاف ایک تحریک آرہی ہے اوراپوزیشن جنہیں جیلوں میں بند کیاگیا ان پربکتربند گاڑیاں چڑھائی گئی اور بلوچستان اسمبلی کو دنیا بھر میں ایک تماشا بنادیاگیاایسی صورتحال میں اپوزیشن جام کمال کے خلاف ہی جائے گی۔
اس حوالے سے 40لوگ جام کمال کے خلاف ہے انہوں نے کہاکہ اپوزیشن سے ہم نے بھی بات کی ہے جام کمال بھی ان کے پاس گئے ہیں جام کمال نے مولاناحیدری اور بی این پی مینگل سے ملاقاتیں کی ہیں سیاست میں رابطے ہوتے رہتے ہیں ہمارامقصد ہے کہ بلوچستان میں خراب طرز حکمرانی جس کی ذمہ دار جام کمال ہے انہیں مائنس کرے پھر اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترحکومت تشکیل دیںگے ۔انہوں نے کہاکہ صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے ہیں ،کل ہم نے کہاتھاکہ اگر وزیراعظم ثالثی کاکرداراداکرنا چاہے تو وہ کرے پی ٹی آئی بلوچستان اور مرکز دونوں میں بی اے پی کے اتحادی ہے اس لئے ان کاکردار بنتاہے اگر وہ معاملے کوافہام وتفہیم کے ساتھ حل کرناچاہیے اور جام کمال کوکہے کہ اتحادی جماعتوں اور بی اے پی جوآپ کے خلاف بارے مشورہ دے سکتے ہیں ہم نے ایک جمہوری عمل اختیارکیاہواہے ۔
انہوں نے کہاکہ جام کمال کاایک وطیرہ نہ خود کام کرتے ہیں نہ دوسروں کوکام کرنے دیتے ہیں ان کی گورننس بلوچستان میں بڑا مشہور کہ 7،سات میٹنگز ہوتی ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جب سے حکومت بنی ہے کوئی نہ کوئی نالاں رہاہے پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمدرند نے بھی نالاں ہوکر استعفیٰ دیاتھا اس کے علاوہ بی اے پی میں بھی آوازیں اٹھتی رہی ہے جب لوگوں نے دیکھاکہ جام کمال سے عوام کااعتماد اٹھ چکاہے عوام انہیں مزید اقتدار پر نہیں رہناچاہتی ،بدقسمتی سے بلوچستان میں حالیہ تین سالوں میں جب بھی کوئی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں چاہے وہ ڈاکٹرز،طلباء ہو ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں ہم سیاسی کارکن ہے ہمیں اپنے حلقوں میں جاناپرتاہے اور اس خراب طرز حکمرانی کے اثرات ہمارے حلقوں پر مرتب ہونگے لوگ پوچھیں گے۔
کہ آپ حکومت میں تھے مسائل حل کرنے کی بجائے آپ نے ہمیں ڈنڈے مارے ہم نے مجبوری میں انتہائی اقدام اٹھایاہے ہم بلوچستان اسمبلی کے نہ صرف ممبرز ہے بلکہ صوبے کے بڑے حصے کی ترجمانی کررہے ہیں جب عوام کااعتماد اٹھ جائے تو پھر اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا کہ کوئی کرسی پر براجمان رہے ،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے لیکن جب سیاست سے ہٹ کربیورکریٹک انداز میں ایک منیجربن کر معاملات کوآگے بڑھائیںگے تو حکومت نہیں چلے گی اور مسائل جنم لیںگے تو انہی مسائل کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد سامنے آیاہے تحریک عدم اعتماد ناکام نہیں ہوگی 15ارکان ناراض جبکہ 24اپوزیشن کے ساتھ ہے ہم تمام اتحادیوں کے پاس جائیںگے ،پی ٹی آئی ،اے این پی ،ایچ ڈی پی ،جمہوری وطن پارٹی کااتحاد جام کمال کے ساتھ نہیں بلکہ بی اے پی کے ساتھ ہے انہیں اپنی حمایت پر نظرثانی کرناچاہیے ۔